الیکشن سے پہلے 215 ارب کے ٹیکس مجبوری کے فیصلے ہیں، قمر زمان کائرہ
وزیراعظم کے مشیر برائے کشمیر امور قمر زمان کائرہ کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی انکار نہیں کہ 215 ارب روپے کے ٹیکس لگے ہیں، یہ سب مجبوری کے فیصلے ہیں۔
آج نیوز کے پروگرام ”روبرو“ میں بات کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما اور مشیر برائے کشمیر امور قمر زمان کائزہ کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی انکار نہیں کہ 215 ارب روپے کے ٹیکس لگے ہیں، یہ ایک مشکل ترین اور تلخ ترین فیصلہ ہے۔
قمرزمان کائرہ کا کہنا تھا کہ الیکشن سر پرہیں ایسے وقت میں یہ فیصلہ انتہائی مشکل فیصلہ تھا، لیکن اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے، ماضی کی حکومت نے بھی آئی ایم ایف کی شرائط مانیں۔
شاہ محمود قریشی کے بیان پر قمر زمان کائرہ کا کہنا تھا کہ شاہ محمود کو چاہئے تھا کہ متبادل بھی بتا دیتے کہ کیا کرنا چاہئے، ہمیں آئین کے تحت الیکشن میں جانا ہے، الیکشن سے کچھ دیر پہلے عوام پر اتنا بڑا بوجھ کسی نے شوق سے نہیں ڈالا، یہ سب مجبوری کے فیصلے ہیں۔
رہنما پی پی پی نے مزید کہا کہ دبئی میں کیا ہورہا ہے، میرے علم میں نہیں ہے، کوئی انڈراسٹینڈنگ ہے تو میں بتا نہیں سکتا، گملوں میں اگائے پودوں سے فائدہ نہیں آتا۔
بجٹ 24-2023 منظور، 215 ارب روپے کے نئے ٹیکس
واضح رہے کہ حکومت کی جانب سے مہنگائی میں پسی عوام پر مزید 215 ارب کے ٹیکس لگانے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔
قومی اسمبلی میں فنانس بل 2023 کی منظوری کے موقع پر وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے بتایا کہ آئی ایم ایف سے 3 دنوں میں تفصیلی مذاکرات کئے، مذاکرات کےنتیجے میں 215 ارب کے ٹیکس لگانے کی تجویز ہے، 215 ارب روپے کے ٹیکس کیلئے ترامیم ٹیبل پر ہوں گی، ہم نے ان ٹیکسز کا بوجھ غریب پر نہ پڑنے کی یقین دہانی کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے یہ بھی مانا ہے کہ اخراجات میں 85 ارب روپے کی کمی کریں گے، 85 ارب کی کٹوتی کا نہ ترقیاتی بجٹ اور نہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پینشن پر ہوگا۔
اسحاق ڈار استعفیٰ دیں
تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے آج ملتان میں اپنی رہائشگاہ میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 9 جون کو جو بجٹ پیش کیا گیا وہ کچھ اور تھا لیکن اب جو بجٹ منظور ہوگا اس میں 215 ارب روپے کے مزید ٹیکس لگائے جارہے ہیں، کھاد پر بھی 5 فیصد ایکسائز ڈیوٹی عائد کی جارہی ہے، حکومت آئی ایم ایف کی 285 ارب روپے کے اخراجات کم کرنے کی شرط کو بھی مسترد کرچکی ہے، آئی ایم ایف کو اسحاق ڈار پر اعتماد نہیں ہے، وہ استعفیٰ دیں اور وزارت خزانہ کی ذمہ داری کسی اور کو سونپیں۔
Comments are closed on this story.