Aaj News

اتوار, دسمبر 22, 2024  
20 Jumada Al-Akhirah 1446  

تارکین وطن کراچی سے لیبیا کیسے پہنچے؟

کراچی سے روانگی اور کشتی ڈوبنے کے بیچ کا راستہ کیسے طے ہوا؟
شائع 25 جون 2023 11:46am
وسطی بحیرہ روم میں مصیبت میں مبتلا کشتی کی تصویر، دور مرچنٹ جہاز پیریکلز اور ایف ایم ٹی ارلا بھی دیکھا جاسکتا ہے (تصویر: روئٹرز)
وسطی بحیرہ روم میں مصیبت میں مبتلا کشتی کی تصویر، دور مرچنٹ جہاز پیریکلز اور ایف ایم ٹی ارلا بھی دیکھا جاسکتا ہے (تصویر: روئٹرز)

یونان کشتی حادثے میں زندہ بچنے والے ایک پاکستانی تارکین وطن نے بتایا کہ کس طرح انہیں اور دیگر کو انسانی اسمگلروں اور ان کے ایجنٹوں نے بحیرۂ روم تک پہنچایا۔

حسیب الرحمان نامی تارک وطن نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ کراچی سے 20 مارچ کو دبئی کے لیے روانہ ہوئے، دبئی پہنچ کر انہوں نے 16 سے 17 گھنٹے انتظار کیا اور اگلے دن مصر کی ساڑھے چار گھنٹے پر مبنی پرواز لی۔

انہوں نے بتایا کہ مصر سے تقریباً رات آٹھ بجے وہ لیبیا کے بن غازی ایئرپورٹ کے لیے نکلے۔

حسیب نے کہا کہ وہ کراچی سے دبئی آئے، دبئی سے مصر اور مصر سے لیبیا گئے۔

ان کے مطابق لیبیا کے بن غازی ایئرپورٹ پر وہی لوگ آتے ہیں، جنہیں اٹلی کا سفر کرنا ہوتا ہے۔

حسیب نے بتایا کہ وہاں پتا نہیں چلتا کہ کون ایجنٹ ہے، بس یہی بتایا جاتا ہے کہ فلاں ٹرمینل پر چلے جائیں۔ میں خود اپنا پاسپورٹ لے کر گیا۔ جب میں کراچی ایئرپورٹ پر گیا تو میں وہاں اکیلا نہیں تھا۔ تقریباً 20 لوگ اور بھی تھے۔

حسیب کے مطابق جب وہ وہاں جا کر بیٹھے تو وہاں انتظار میں بیٹھے لوگوں نے پوچھا کہ آپ بھی لیبیا جانا چاہتے ہیں؟ تو انہوں نے ہاں میں جواب دیا۔

حسیب نے کہا کہ انہوں نے اور میرے ساتھ آنے والے لڑکوں نے بتایا کہ فلاں کاؤنٹر پر آپ کا پاسپورٹ جمع ہو گا، تو بس ایسے کرتے کرتے ہم سفر کے لیے تیار ہو گئے اور دبئی گئے۔

ان کے مطابق کراچی اور دوسرے مقامات سے بن غازی پہنچ کر سب الگ ہوکر اِدھر اُدھر چلے جاتے ہیں۔

حسیب کے مطابق بن غازی پر پہنچ کر ائیرپورٹ پر وہ لوگ (ایجنٹس) خود ہمیں لینے آتے ہیں، ان کے پاس ہمارے پاسپورٹ کی کاپی اور تصویریں ہوتی ہیں۔ وہ ائیرپورٹ سے ہمیں ایک جگہ لے گئے جہاں ہمارا سامان آنا تھا اور پاسپورٹ لے لیے۔ ہم سے ہمارے پاسپورٹ لے کر ردی کی طرح کاؤنٹر پر ڈال دیے۔ ہم اپنی رہائش گاہ پر چلے گئے اور دو سے تین دن بعد ہمیں پاسپورٹ ملے۔

حسیب نے بتایا کہ لیبیا کا جو بھی علاقہ ہو وہاں وہ کھانا فراہم نہیں کر سکتے تھے۔ سارا سفر رات کا ہوتا ہے کبھی کار کبھی ویگو ڈالے کبھی ٹرک میں۔ حسیب کے مطابق یہ لوگ فون پہلے لے لیتے ہیں تاکہ بھوک پیاس کا ہم اپنے گھر نہ بتا سکیں اور شور شرابا نہ ہو۔

ان کے مطابق یہ ہمیں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتے رہتے ہیں۔ پھر انہوں نے نو جون کو اٹلی کے لیے سفر شروع کروایا۔ ہمیں کنٹینر میں بٹھا کر سمندر کے کنارے لایا گیا۔ وہاں اترتے ہی کہا جاتا ہے کہ چلو، کبھی ہم بھاگتے کبھی چلتے ہیں۔ ہر ایک کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ آگے رہے اور اس کا نمبر پہلے آئے۔

حسیب کے مطابق صبح کے تقریباً چار بجے انہیں کنٹینر سے نکالا گیا تھا۔ بڑی کشتی پر اسپیڈ بوٹ کے ذریعے چڑھایا گیا، کسی کو بازو سے پکڑ کر کسی کو کپڑوں سے کھینچ کر اوپر کیا جیسے مرغیوں والی گاڑی ہوتی ہے اسی طرح لوگوں کو کھینچ کر نکالا جاتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ جب ہم لیبیا سے بیٹھے تو نشستوں پر ہمیں لیبیا کے لوگ جہاں بٹھاتے ہیں وہاں بیٹھنا ہوتا ہے، جس کو آگے بٹھا دیا وہ پیچھے نہیں آ سکتا اور پیچھے والا آگے نہیں جا سکتا۔ کشتی شروع میں دو دن صحیح رہی پھر کبھی گھنٹہ خراب کبھی پانچ گھنٹے پھر ایک پوری رات خراب رہی تو انھیں لگا کہ بس اب آخری دن ہے۔ آخری دن کشتی دن میں 12 سے ایک بجے بند ہوئی پھر چار یا ساڑھے چار بجے چلی۔ پھر سات بجے ساڑھے سات بجے بند ہو گئی اور ادھر سے ادھر ڈولتی رہی۔ اور بالآخر دوب گئی۔

اسی طرح پاکستان سے تعلق رکھنے والے 24 سالہ رانا نے ایک یونانی اخبار ”کاتھیمیرینی“ سے گفتگو میں اسمگلروں کے ہتھے چڑھنے سے لے کر کشتی ڈوبنے تک کے واقعات بیان کیے ۔ اس سانحے میں رانا خود تو بچ گئے مگر ان کے بیوی بچے کشتی کے ساتھ ہی ڈوب گئے۔

رانا نے اخبار کو بتایا، ’ہم نے بہتر زندگی کے لیے اٹلی جانے کا فیصلہ کیا، اس لیے کہ وہاں میرا بھائی رہتا ہے۔ میں نے ”ر“ نامی پاکستانی کو آٹھ ہزار ڈالر پیشگی دیے۔ اس سے طے پایا کہ جب ہم اٹلی پہنچیں گے تو میرا بھائی بقیہ رقم دے گا جو مجھے نہیں معلوم کہ کتنی ہو گی کیونکہ میرے بھائی نے (ادائیگی) کا بندوبست کر دیا ہے۔‘

انہوں نے مزید بتایا، ”ر“ نے مجھے اس میں سے دو ہزار ڈالر واپس دے دیے کہ میں یہ رقم لیبیا میں ”ا“ نامی ایک شخص کو دے دوں۔ میرا اندازہ ہے کہ وہ اس کا بھائی تھا۔ وہ کشتی جس نے ہمیں یورپ لے جانا تھا، اسی کی تھی۔

’تقریباً ایک ماہ قبل ہم پاکستان سے ہوائی جہاز کے ذریعے دبئی اور وہاں سے مصر اور پھر ہوائی جہاز کے ذریعے لیبیا پہنچے۔ وہ ہمیں ایک گھر میں لے گئے جہاں 150 کے قریب دوسرے لوگ ٹھہرے ہوئے تھے۔ ہم وہاں پانچ دن رہے اور پھر ”ا“ ہمیں ایک اپارٹمنٹ میں لے گیا، جہاں تقریباً 200 لوگ مقیم تھے۔

’ہم وہاں تقریباً 20 دن رہے اور پھر ”ا“ ہمیں شیشوں والے ایک مکان میں لے گیا جہاں تقریباً 300 لوگ رہ رہے تھے۔ ہم ایک رات وہاں رہے اور اگلے دن وہ ہمیں 12 کاروں میں لیبیا کے شہر تبروک کے ایک اپارٹمنٹ میں لے گئے۔ ہم وہاں کچھ دن رہے اور نو جون 2023 کو صبح کے وقت ٹرک میں ہمیں لیبیا کے ایک ساحل پر لے جایا گیا۔

’سمندر میں 30 میٹر لمبی مچھلیاں پکڑنے والی ایک بڑی کشتی تھی جو پرانی اور نیلے رنگ کی تھی۔ وہ ساحل سے ہمیں چھوٹی کشتیوں میں بٹھا کر بڑی کشتی پر لے گئے۔ بڑی کشتی پر سوار ہونے کے بعد ہم نے دیکھا کہ اس کے نگران دو لوگ تھے۔ جب ہم کشتی پر سوار ہوئے تو انہوں نے بتایا کہ ہمیں کہاں بیٹھنا ہے۔ مجھے اوپری عرشے پر بٹھایا گیا اور میری بیوی اور بچوں کو ایک کیبن میں رکھا گیا۔‘

رانا نے مزید کہا کہ ’ہمارا سفر جمعے کی صبح شروع ہوا۔ کشتی پر تقریباً 700 افراد سوار تھے۔ ہم تین دن تک سمندر میں سفر کرتے رہے کہ کشتی کا انجن خراب ہو گیا۔ وہاں ایک شخص کشتی کے انجن کو ٹھیک کرتا رہا، مگر یہ بار بار خراب ہو جاتا تھا۔ 13 جون 2023 کی شام کو اسمگلروں نے کشتی کا انجن بند کر دیا تاکہ قریب سے گزرنے والے جہازوں کو آواز نہ آئے۔‘

’کشتی میں سوار کچھ مصریوں نے قریب سے گزرتے ہوئے ایک جہاز سے پانی مانگا۔ جہاز کے عملے نے پانی کے ڈبے پھینکے اور مصریوں نے سارا پانی اچک لیا اور ہمیں نہیں دیا۔ ہماری ان سے لڑائی شروع ہو گئی جس کے بعد انہوں نے ہمیں بھی تھوڑا سا پانی دیا۔‘

’پھر عملے نے دوبارہ انجن اسٹارٹ کیا اور کشتی آگے بڑھنے لگی۔ آدھے گھنٹے بعد کشتی کا انجن پھر بند ہو گیا۔ میں ڈر کے مارے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر دعائیں مانگنے لگا۔ اچانک مجھے کشتی ایک طرف جھکتی ہوئی محسوس ہوئی اور اس میں پانی بھرنے لگا۔ ہم کشتی کے اس حصے سے ہٹ کر دوسری جانب چلے گئے، مگر اس طرف وزن زیادہ ہو گیا جس کی وجہ سے کشتی ڈوبنے لگی۔‘

’کچھ لوگوں نے سمندر میں چھلانگ لگا دی اور کچھ نے کشتی کے مختلف حصوں کو پکڑ لیا۔ میں نے سمندر میں چھلانگ لگا دی، لیکن چونکہ مجھے تیرنا نہیں آتا تھا، میں پانی کی سطح پر اپنی پشت کے بل لیٹ کر انتظار کرنے لگا کہ کوئی آ کر مجھے بچائے۔ چند منٹ بعد ایک بڑا جہاز وہاں سے گزرا اور جو لوگ سمندر میں تھے، انہیں اٹھا کر یہاں لے آیا۔ جو لوگ باہر نہ نکل سکے وہ کشتی سمیت پانی میں ڈوب گئے، ان میں میری بیوی اور بچے بھی شامل تھے جو کیبن میں تھے۔‘

Greece Boat Disaster