Aaj News

جمعہ, نومبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Awwal 1446  

بھوک پیاس، اندھیری رات اور بھگدڑ۔۔۔ یونان میں کشتی پر آخری گھنٹے کیسے گزرے

'بسکٹ پانی دیا لیکن بچایا نہیں'، یونان حادثے میں زندہ بچے پاکستانی کی روداد
اپ ڈیٹ 25 جون 2023 06:06pm
علامتی تصویر
علامتی تصویر

یونان کے قریب ڈوبنے والی کشتی میں ایک خوش نصیب نوجوان حسیب بھی تھا جو اپنی سبق آموز روداد سنانے کیلئے زندہ بچ گیا۔

برطانوی خبر رساں ادارے ”بی بی سی“ کو دئے گئے ایک انٹرویو میں حسیب نے بتایا کہ وہ ایک بائیک مکینک ہے اور آزادکشمیر کے علاقے کھوئی رٹی کا رہائشی ہے۔

بیس سالہ حسیب الرحمان نے اپنی تنگ دستی اور اجرت نہ ملنے سے تنگ آکر ملک چھوڑنے کا فیصلہ کیا لیکن اسے کیا پتا تھا کہ وہ کس عذاب میں مبتلا ہونے جارہا ہے۔

حسیب نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ جس کشتی میں بیٹھا ہوا تھا اس کی تین منزلیں تھیں اور وہ دوسری منزل کے آخر میں بیٹھا تھا۔

حسیب کے مطابق آخری روز دن تقریباً دو سے تین بجے کشتی کا انجن خراب ہوا، وہ چل نہیں رہی تھی۔ اس کے بعد تقریباً 4:30 بجے ایک بحری جہاز آیا جس نے مدد تو کی مگر ریسکیو سے گریز کیا۔ جہاز کے عملے نے کشتی میں سوار لوگوں کو پانی اور بسکٹ فراہم کیا اور چلے گئے۔

یونان میں ڈوبنے والی کشتی پر کم از کم ساڑھے تین سو پاکستانی سوار تھے جن میں سے صرف 12 زندہ بچے۔ جنہیں ایک کیمپ میں نظربند کردیا گیا، بعدازاں ان تمام کو پناہ گزین کارڈ جاری کرکے چھوڑ دیا گیا۔

 کشتی حادثے میں زندہ بچے پاکستانیوں کی تصاویر ، بزریعہ پاکستان ایمبیسی
کشتی حادثے میں زندہ بچے پاکستانیوں کی تصاویر ، بزریعہ پاکستان ایمبیسی

رہائی کے بعد کشتی پر پیش آنے والے واقعات اور پاکستانی تارکینِ وطن سے روا رکھے گئے سلوک کے بارے میں بات کرتے ہوئے حسیب نے بتایا کہ ماہی گیری کے لیے استعمال ہونے والی کشتی پر لیبیا سے اٹلی کے سفر کے دوران کشتی متعدد بار بند ہوئی۔

انہوں نے بتایا کہ ایک بڑا جہاز کشتی سے تقریباً ایک سے ڈیرھ کلومیٹر کے فاصلے پر شپ رُکا اور وہاں سے انہوں نے ہمیں پانی دیا جو کچھ کو ملا کچھ کو نہ مل سکا۔

حسیب کے مطابق کشتی کبھی ایک جانب جا رہی تھی کبھی دوسری جانب، ہم نے آوازیں لگائیں کہ ’ہیلپ می ہیلپ می‘ مگر انہوں (جہاز کے عملے) نے کچھ نہ سنا۔

حسیب بتاتے ہیں کہ مسافر دور سے اشارے کر رہے تھے کہ پانی اور بسکٹ لے لیں۔ کافی لڑکوں نے اور بھی الفاظ بولے لیکن شاید ان تک آواز نہیں گئی اور وہ ہمیں یہ کھانا دے کر چلے گئے۔ کافی لوگوں نے قمیضیں اتار کر بھی لہرائیں مگر وہ چلے گئے۔

حسیب نے بتایا کہ جہاز کے جانے اور کشتی کے بند ہونے کے بعد وہاں چیخ و پکارشروع ہو گئی تھی۔ پاکستانی شہری بھی کہہ رہے تھے کہ جان بچائی جائے۔ پاکستانیوں کو یہ اجازت نہیں ہوتی تھی کہ وہ اپنی مرضی کر سکیں، یا وہاں سے کھانا بھی لے سکیں۔

انہوں نے بتایا کہ رات کے اندھیرے میں کشتی میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کی بھی جگہ موجود نہیں تھی۔ پھر ہم نے لوگوں سے سنا کہ رسا ڈالا جا رہا ہے۔ ہماری کشتی کا انجن اس وقت بند تھا۔ کشتی اندھیرے میں چل رہی تھی اس کے سائیڈ پر کوئی روشنی نہیں تھی۔ کافی دیر بعد بتایا گیا کہ ریسکیو کرنے کے لیے ایک جہاز آیا ہے۔

حسیب کے مطابق وہ پیچھے تھے اس لئے انہیں نظر نہیں آیا۔ انہیں پتا کہ رسہ ڈالا یا نہیں ڈالا مگر کم سے کم دس منٹ تک کشتی چلتی رہی۔

وہ بتاتے ہیں کہ ڈوبنے سے قبل کشتی کو کوئی مدد میسر نہ تھی۔ پھر تقریباً ساڑھے سات بجے ایک اور بحری جہاز آیا، ’انہوں نے رسی وغیرہ بھی ہماری جانب پھینکی، وہ بھی بسکٹ اور پانی دے کر چلے گئے۔‘

حسیب نے بتایا کہ ہم اس کشتی کے بالکل ساتھ لگ گئے تھے۔ پھر اللہ کا ایک معجزہ ہوا اور ہماری کشتی کا انجن اس وقت اسٹارٹ ہو گیا اگر یہ اسٹارٹ نہ ہوتا تو کسی کو پتہ بھی نہ چلتا کہ وہاں کوئی کشتی بھی آئی تھی۔

 حسیب الرحمان (تصویر بزریعہ بی بی سی)
حسیب الرحمان (تصویر بزریعہ بی بی سی)

حسیب کے مطابق کچھ مصری شہری عربی میں بات کر رہے تھے کہ ہمیں چار دن سے کھانے پینے کے لیے کچھ بھی نہ ملا۔ پھر ہم لوگوں نے شور کیا کہ اگر کشتی اٹلی نہیں جا سکتی تو کسی اور ملک کے کنارے لگا دیں۔ بات اس نہج پر پہنچ گئی کہ انہوں نے مطالبہ کیا کہ بے شک اسے لیبیا یا یونان لے جا کر سب کی جان بچائیں۔

حسیب کے مطابق کشتی میں سات سو سے ساڑھے سات سو لوگ تھے، جو کشتی ڈولنے سے کبھی ایک جانب جا رہے تھے کبھی دوسری جانب۔ جب سب کا وزن ایک جانب گیا تو کشتی الٹ گئی اور پھر بھگڈر مچ گئی۔

انہوں نے بتایا کہ دو تین لوگ ایسے تھے جو نیچے سے اوپر آئے انہی میں سے ایک بزرگ بھی تھے جو پانچ منٹ پہلے ہی اوپر آئے اس طرح ان کی جان بچ گئی۔

انہوں نے بتایا کہ جب میں سمندر میں گرا تو ایک چیخ و پکار مچی ہوئی تھی۔ میرے ساتھ آنے والے کچھ عزیز بھی تھے ان میں ارشد شریف اور ندیم ترین بھی میرے ساتھ تھے۔ وہ بھی اسی کشتی میں تھے مگر میں ان کے لیے کچھ نہ کر سکا۔ وہ ڈوب گئے۔

 حسیب الرحمان (تصویر بزریعہ بی بی سی)
حسیب الرحمان (تصویر بزریعہ بی بی سی)

حسیب نے بتایا کہ کشتی پر میں دس سے پندرہ منٹ بیٹھا پھر وہ بھی پانی میں نیچے چلی گئی۔ وہاں بہت اندھیرا تھا جو بحری جہاز ریسکیو کرنے کے لیے آیا تھا وہ بھی ایک سے ڈیڑھ کلومیٹر دور چلا گیا تھا۔ یہ اللہ کا معجزہ ہے جو میں بچ گیا ہوں۔

انہوں نے جینز کی پینٹ پہنی ہوئی تھی اور تقریباً ایک گھنٹہ سمندر میں تیرتے رہے تھے۔ پھر وہ اس بحری جہاز کے پاس پہنچے جو مدد کے لیے آیا تھا۔

انہوں آوازیں دیں کہ ’مائی فرینڈ ہیلپ می‘ تو انہوں نے ایک ٹیوب نما رسا اور ایک سیفٹی جال ان کی طرف اچھال دیا، وہ اس پر چلتے ہوئے شپ پر پہنچ گئے۔

حسیب کے مطابق وہ جہازغالباً یونان کی نیوی یا فوج کی کشتی تھی۔

رات کے دو تین بجے وہ اس جہاز پر سوار ہوئے۔ پھر ان کا ریسکیو ہیلی کاپٹر آیا، اس کے بعد ان کا ایک اور شپ بھی لوگوں کو بچانے کے لیے آیا جس نے 15 سے 16 لوگوں کو فوری اسپتال پہنچایا۔

حسیب کا کہنا ہے کہ رات ہم نے اس شپ پر گزاری جو سمندرمیں چلتا رہا۔ صبح چھ یا سات بجے ایک اور شپ آیا، جس پر ہم بیٹھ گئے، دن گیارہ یا بارہ بجے ہم کلاماتا میں پہنچے۔ اس وقت ہمیں درست وقت کا اندازہ نہیں تھا اور یہ میں دن کی گرمی کے حساب سے اندازہ بتا رہا ہوں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ اس کے بعد ان تمام افراد کو ایک ایمرجنسی میں رکھا گیا۔ جنہیں صحت کے مسائل تھے ان کو اسپتال لے گئے اور ہمیں چار دن بعد وہاں کھانا نصیب ہوا۔

انہوں نے یونان کی حکومت ان کی امدادی ٹیموں اور ڈاکٹرز کا شکریہ ادا کیا۔

Greece Boat Disaster