بجٹ 24-2023 منظور، 215 ارب روپے کے نئے ٹیکس، پیٹرولیم لیوی بڑھانے کا اعلان
قومی اسمبلی نے وزیرخزانہ کی جانب سے پیش کی گئی پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی آرڈیننس میں ترمیم سمیت بجٹ 2023-24 کثرت رائے سے منظور کرلیا ہے، پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی آرڈیننس میں ترمی کے بعد وفاق کو 60 روپے فی لیٹر تک لیوی عائد کرنے کا اختیار ہوگا۔
فنانس بل 2023 میں مجموعی طورپر 9 ترامیم پیش کی گئیں جنہیں منظور کرلیا گیا۔ فنانس بل میں 8 ترامیم حکومت اور ایک ترمیم اپوزیشن کی منظور کی گئی۔
قومی اسمبلی سے فنانس بل کی منظوری کے عمل کے دوران اراکین کی اکثریت ایوان سے غائب نظر آئی۔
وزیراعظم سمیت اہم پارلیمانی رہنما ایوان سے غیر حاضر رہے. بلاول بھٹو، آصف زرداری، اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض، اختر مینگل، امیر حیدر ہوتی بھی غیر حاضر رہے۔
فنانس بل کی منظوری کے موقع پر ایوان میں حکومتی بینچز پر 70، اپوزیشن بینچز پر 2 اراکین نظر آئے۔
ایوان نے اپوزیشن کے رکن عبدالاکبر چترالی کی ترمیم بھی منظور کرلی جس کے مطابق چیئرمین قائمہ کمیٹیوں کو 1200 سی سی تک گاڑی استعمال کرنے کی اجازت ہوگی، اس وقت 1300 سے 1600 سی سی تک گاڑی استعمال کرنے کی اجازت ہے۔
قومی اسمبلی نے 14 ہزار 480 ارب روپے کا وفاقی بجٹ منظور کرتے ہوئے ٹیکس وصولیوں کا ہدف 9 ہزار 200 سے بڑھا کر 9 ہزار 415 ارب مقرر کردیا۔
بجٹ میں پینشن ادائیگی 761 ارب سے بڑھا کر 801 ارب کر دی گئی، این ایف سی کے تحت 5 ہزار 276 ارب کے بجائے 5 ہزار 390 ارب ملیں گے۔
فنانس بل میں مزید ترمیم کے تحت 215 ارب کے نئے ٹیکس عائد کیے گئے ہیں، بی آئی ایس پی پروگرام 459 ارب کی بجائے 466 ارب کر دیا گیا، وفاقی ترقیاتی بجٹ ساڑھے 900 ارب ہوگا۔
فنانس بل میں ترمیم منظور کرتے ہوئے تین ہزار دو سو ارب روپے کے زیر التواء 62 ہزار کیسز سمیت تنازعات کے حل کے لئے 3 رکنی کمیٹی تشکیل دی جائے گی، جس کے فیصلے کے خلاف ایف بی آر اپیل دائر نہیں کرسکے گا تاہم متاثرہ فریق کو عدالت سے رجوع کرنے کا اختیار ہوگا۔
گزشتہ روز وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا تھا کہ اسٹیٹ بینک نے کچھ پابندیاں لگائی تھیں، لیکن اب اسٹیٹ بینک نے تمام پابندیاں ہٹا دی ہیں۔
اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف کی زیر صدارت اجلاس اظہارخیال کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ایک طرف 215 ارب روپے کے اضافی ٹیکسز عائد کرنے کی خبر دی تو دوسری طرف کہا کہ اب تاجروں اور انڈسٹری کے مسائل کا خاتمہ ہو جائے گا۔
حکومت آئی ایم ایف کے مطالبے پر ڈھیر ہوگئی، مہنگائی میں پسی عوام پر مزید 215 ارب کے ٹیکس لگانے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔
اسحاق ڈار نے بتایا کہ آئی ایم ایف سے 3 دنوں میں تفصیلی مذاکرات کئے، مذاکرات کےنتیجے میں 215 ارب کے ٹیکس لگانے کی تجویز ہے، 215 ارب روپے کے ٹیکس کیلئے ترامیم ٹیبل پر ہوں گی، ہم نے ان ٹیکسز کا بوجھ غریب پر نہ پڑنے کی یقین دہانی کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے یہ بھی مانا ہے کہ اخراجات میں 85 ارب روپے کی کمی کریں گے، 85 ارب کی کٹوتی کا نہ ترقیاتی بجٹ اور نہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پینشن پر ہوگا۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ تجویز تھی کہ سیلری کلاس پر ٹیکس دگنا کردیا جائے، اس تجویز پر میں تو بیہوش ہی ہوگیا۔
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے بجٹ تجاویز میں ہونے والی ترامیم بتاتے ہوئے کہا کہ کچھ ہمارے ساتھیوں نے حج کیلئے جانا ہے کل ہم نے ایک خصوصی حج فلائٹ ایرینج کی ہے ، جو کہ سعودی پروٹوکول اور اتھارٹی کے ساتھ طے ہے ، ورنہ 22 سے 23 کے درمیانی شب بند کر دی گئی ہیں، الحمدُ اللہ حجاج منیٰ میں جارہے ہیں، کل صبح سویرے فلائیٹ ہے، جنہوں نے فیصلہ کیا ہے وہ تیار رہیں، وہاں ہمارے لیے دعا کریں، ان کی آواز بھی اس میں شامل ہو گی ، اس کے نتیجے میں پاکستان کے چند سالوں سے سامنے آنے والے مسائل سے اللہ ہمیں نجات دے ۔
وزیرخزانہ نے کہا کہ بجٹ پر معزز ارکان کی تجاویز پر غور کیا، میں بلاول بھٹو، راجا ریاض اور تمام اراکین کا شکریہ ادا کرتا ہوں، اراکین نے تنقید کے ساتھ تجاویز بھی پیش کیں، خواتین اراکین نے بھی بجٹ بحث میں بھرپور حصہ لیا، تمام تجاویز پر مختلف شعبہ ہائے زںدگی کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی، آبی سیکیورٹی، بڑھتی آبادی کی روک تھام، ای او بی آئی کی پنشن، روس سے تجارت، بلوچستان، فاٹا اور پاٹا کی ترقی کے لیے بہترین تجاویز اس ایوان کو دی گئیں۔ سینیٹ نے بھی بہت مفید تجاویز دیں، میں سینیٹرز کا بھی مشکور ہوں۔
انہوں نے کہا کہ ڈیویڈنٹ پر 15 فیصد اور بونس شیئر پر 10 فیصد ٹیکس لگانے کی تجویز ہے۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ قائمہ کمیٹی خزانہ کی سفارشات ہمارے لیے مشعل راہ ہیں، سینیٹ کی 59 میں سے 19 سفارشات عمومی نوعیت کی تھیں، سینیٹ کی متعدد تجاویز کو تسلیم کر لیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سینیٹرز نے سود کے خاتمے کی سفارش پیش کیں، دفاعی بجٹ میں اضافے سے متعلق بھی تجاویز آئیں، شمسی توانائی کے شعبے کے فروغ سمیت 59 تجاویز ہیں۔
ایوان بالا کی جانب سے مجموعی طور پر 59 سفارشات آئیں ان میں سے 19 جنرل نوعیت کی تھیں، معزز ممبران سینیٹ نے بجٹ بحث کے دوران بھی اپنی تجاویز پیش کیں، جن میں میں سود کے خاتمے ، دفاعی بجٹ میں اضافہ ،غیر ضروری اخراجات پر کنٹرول ، لیپ ٹاپ سکیم ، ووکیشینل ٹریننگ ، نقصان میں چلنے والے اداروں کی نجکاری ، یوٹیلیٹی سٹورز پر اشیاءکی سستے داموں فراہمی ، بیج کھاد اور شمسی توانائی کی پیدوار پر سبسڈی، صحت کے محکمے کا بجٹ بڑھانا ، آئی ٹی کا فروغ شامل ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جن تجاویز پر عملدرآمد ممکن ہو، ان کو منظور کیا جائے گا۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ سپر ٹیکس گزشتہ سال متعارف کرایا گیا تھا، اسے مزید پروگریسیو کیا گیا ہے، سپر ٹیکس کو 300 ملین سے بڑھا کر 500 ملین روپے تک کیا گیا ہے، سپر ٹیکس ان لوگوں پر عائد کیا گیا جو ادا کرسکتے ہیں۔
اسحاق ڈار کے مطابق نان فائلرز کو ٹیکس نیٹ میں لانے سے متعلق تجاویز دی گئیں، سپر ٹیکس کچھ تبدیلیوں کے ساتھ برقرار رہے گا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ بعض ممبران نے بونس شیئر پر ٹیکس لگانے کی مخالفت کی ہے، کمپنیاں شیئر ہولڈرز کو کیش اور بونس شیئرز کی شکل میں جاری کرتی ہیں، جیسے شیئر ہولڈرز سٹاک ایکسچینج میں اپنے شیئرز بیچ سکتے ہیں اور نقد رقم حاصل کر سکتے ہیں، پہلی صورت میں شیئر ہولڈر موصول ہونے والے نقد کیش پر پندرہ فیصد ٹیکس ادا کرتے ہیں ، دوسری صورت میں بونس شیئر کی صورت میں ملتاہے تو اس پر کوئی ٹیکس لاگو نہیں ہوتا اس صورت میں ہم نے کیش ڈیویڈنٹ اور بونس شیئر دونوں پر ٹیکس لگا دیا ہے، ساتھ ہی بونس شیئر کیلئے کم شرح رکھی ہے ، اس کیلئے 10 فیصد تجویز کی گئی ہے۔ جب بجٹ پاس ہوگا تو لاگو ہو جائے گی، یہ ٹیکس کمپنی نہیں بلکہ جس کو بونس شیئرز ملیں گے وہ ادا کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ بہت سارے لوگوں نے انکم ٹیکس آرڈیننس میں متعارف کروائے گئے 99 ڈی سیکشن پر تحفظات ظاہر کیے ہیں، جو وفاقی حکومت کو اس شخص سے پچاس فیصد اضافی ٹیکس وصول کرنے کا اختیار دیتا ہے جس نے اس سے خارجی عوامل کی وجہ سے غیر متوقع منافع کمایا ہو، اس کا ہدف خاص شخص یا کمپنی نہیں ہے ، اگر حکومت اس بات کا تعین کرتی ہے کہ ایسے شعبے نے خارجی عناصر سے فائدہ اٹھاتے ہوئے غیر متوقع منافع کمایا ہے تو یہ ٹیکس پورے شعبے پر لگایا جائے گا نہ کی کسی ایک کمپنی پر ۔یہ کارپوریٹ سیکٹر ہو گا ، یہ کسی انفرادی شخصیت پر نہیں ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک نے درآمدات سے پابندیاں اٹھالی ہیں، سختیاں ختم ہونےسے سرمایہ کاروں کوفائدہ ہوگا۔
اسحاق ڈار کے مطابق غیر متوقع منافع پر پوری دنیا میں ٹیکس لاگو ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مسلح افواج اندرونی اور بیرونی سازشوں کا مقابلہ کر رہی ہیں، ان کی ضروریات پوری کرنے کیلئے دفاعی بجٹ بڑھایا گیا، دفاعی بجٹ بروقت جاری کیا جائے گا۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ سرکاری ملازمین کی کم ازکم تنخواہ 32 ہزار روپے کی گئی ہے، پنشن میں بھی خاطر خواہ اضافہ کیا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پنکھے مہنگے نہیں کئے، بجلی بچانے کیلئے اقدام کیا، پنکھے بنانے والی کمپنیز کو چھ ماہ کا وقت دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ رمضان پیکج کیلئے پانچ، وزیراعظم پیکج کیلئے 34 ارب مختص ہیں، بینظیر انکم سپورٹ کیلئے 466 ارب مختص کردیئے ہیں۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ دفاعی بجٹ کے ضمن میں تمام ضروریات پوری کی جائیں گی، قبائلی اضلاع کیلئے خطیر رقم مختص کی گئی ہے۔
اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ پاکستان بیرونی ادائیگیاں بروقت کرے گا۔ پاکستان نے بیرونی ادائیگیاں وقت پر ادا کرنی ہیں، بیرونی ادائیگیاں کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کے کفایت شعاری پروگرام کو برقرار رکھا جائے گا، سرکاری ملازمین کو صرف ایک ادارے سے پنشن ملےگی، گریڈ 17 سے اوپر ریٹائرڈ ملازمین کو ایک ادارے سے پنشن ملے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ معیشت کی بہتری کیلئے مشکل فیصلے کرنے پڑیں گے، پیٹرولیم منصوعات پر لیوی 50 سے بڑھا کر 60 روپے کی جائے گی، ریٹائرڈ ملازمین کے انتقال پر بچوں کو 10 سال تک پنشن ملے گی۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ آنے والے دو یا تین دن میں بجٹ 24-2023 پاس ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ کوشش ہے پاکستان کے فارن ریزرو میں اضافہ کریں۔ آہستہ آہستہ معمول کے معاشی حالات کی طرف جارہے ہیں، تمام شہری واجب الادا ٹیکس ادا کریں، یہ ملک کیلئے ضروری ہے۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ نان فائلرز کے رقم نکالنے پر 0.6 فیصد ود ہولڈنگ ٹیکس لاگو ہوگا، فوڈ سیکیورٹی، موسمیاتی تبدیلی، زراعت کیلئے 30 ارب روپے مختص ہیں، نجی شعبے کے ملازمین کیلئے کم ازکم اجرت 32 ہزار روپے کردی گئی ہے، ای اوبی آئی کی پینشن ساڑھے 10 ہزار روپے کرنے کی تجویز دی ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت نے تیل کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ عام آدمی تک پہنچایا، ایک ماہ کےدوران پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں نمایاں کمی کی۔
ان کا کہنا تھا کہ قومی بچت کی اسکیمز میں سرمایہ کاری کی حد 75 لاکھ روپے کی جارہی ہے، پینشنر بینیفٹ اکاؤنٹ میں بھی سرمایہ کاری کی حد 75 لاکھ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
Comments are closed on this story.