Aaj News

اتوار, دسمبر 22, 2024  
20 Jumada Al-Akhirah 1446  

افغان طالبان کی حکومت واٹس ایپ پر چلتی ہے، امریکی اخبار کا دعویٰ

واٹس ایپ امریکی پابندیوں کی تعمیل کے لئے اکاؤنٹس کو بلاک بھی کررہا ہے
شائع 23 جون 2023 12:13pm
14 اپریل 2023 کو کابل میں طالب زاہد عمر واٹس ایپ پر صوتی پیغامات کا تبادلہ کر رہے ہیں/ نیویارک ٹائمز
14 اپریل 2023 کو کابل میں طالب زاہد عمر واٹس ایپ پر صوتی پیغامات کا تبادلہ کر رہے ہیں/ نیویارک ٹائمز

امریکی اخبار نیویارک ٹائمزمیں شائع رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ افغانستان میں طالبان اپنی حکومت واتس ایپ کے ذریعے چلا رہے ہیں۔

نیو یارک ٹائمز میں شائع رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے واٹس ایپ امریکی پابندیوں کی تعمیل کے لئے اکاؤنٹس کو بلاک بھی کررہا ہے۔

رپورٹ کے مطابق حالیہ مہینوں میں طالبان حکام، پولیس اور فوجیوں کی جانب سے ان کے واٹس ایپ اکاؤنٹس پر پابندی یا عارضی طور پر غیر فعال کیے جانے کی شکایات بڑے پیمانے پر سامنے آئی ہیں، جس سے واضح ہو گیا ہے کہ پیغام رسانی کا پلیٹ فارم کس طرح طالبان کی نوزائیدہ حکومت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔

یہ رکاوٹیں ایک ایسی حکومت پر بین الاقوامی پابندیوں کے دور رس نتائج کی نشاندہی کرتی ہیں جو دنیا میں سب سے الگ تھلگ ہو چکی ہے۔

امریکہ طویل عرصے سے طالبان کی کسی بھی قسم کی حمایت کو جرم قرار دیتا رہا ہے۔ کمپنی ترجمان کے مطابق میٹا کی ملکیت والی واٹس ایپ صارفین میں سے طالبان کی شناخت کرنے اور ان کے اکاؤنٹس بلاک کرنے کے لیے میسجنگ ایپ پر گروپ کے نام، تفصیلات اور گروپ پروفائل تصاویر اسکین کرتی ہے۔

یہ پالیسی دو دہائیوں سے زائد عرصہ قبل امریکی پابندیوں کے نفاذ کے بعد سے نافذ العمل ہے۔ پابندی کے باعث کچھ جنگجو جو ناخواندہ ہونے اور تکینکی مہارت نہ رکھنے کے باعث ایپ پر انحصار کرتے تھے عملی طور پر معذور ہوگئے کیونکہ واٹس ایپ کے وائس میسج فیچر کا استعمال کرتے ہوئے وہ ایک بٹن دباکر پیغامات بھیج سکتے ہیں اور اپنے کمانڈرز کی زبانی ہدایات سن سکتے ہیں۔

لیکن گزشتہ دو برس کے دوران، طالبان کا واٹس ایپ پر انحصار اور بھی زیادہ ہو گیا ہے کیونکہ اسمارٹ فون کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے اور امریکہ کی زیر قیادت جنگ کے خاتمے کے ساتھ ہی افغانستان بھر میں 4 جی نیٹ ورکس میں بہتری آئی ہے۔ طالبان نے حکمرانی پر اپنا کنٹرول مستحکم کیا ہے اورانتظامیہ کے اندرونی بیوروکریٹک کام بھی زیادہ منظم ہوگئے ہیں کیونکہ واٹس ایپ ان کے سرکاری مواصلات میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔

سیکیورٹی فورسز اپنے فونز سے دولت اسلامیہ کے سیلوں، جرائم پیشہ نیٹ ورکس اور مزاحمتی جنگجوؤں کے خلاف چھاپوں کی منصوبہ بندی کرتی ہیں۔

شمالی افغانستان کے صوبہ بغلان میں طالبان انتظامیہ کے ترجمان شیر احمد برہانی کا کہنا ہے کہ واٹس ایپ ہمارے لیے بہت اہم ہے اور میرا سارا کام اسی پر منحصر ہے۔ اگر واٹس ایپ نہ ہوتا تو ہمارے تمام انتظامی اور غیر انتظامی کام مفلوج ہو جاتے۔

طالبان کی صفوں میں واٹس ایپ کا استعمال جنگ کے دوران شروع ہوا ، کیونکہ اس ایپ نے دنیا بھر میں مقبولیت حاصل کی۔ ایک اندازے کے مطابق افغانستان کی تقریبا 70 فیصد آبادی کو موبائل فون تک رسائی حاصل ہے۔ دنیا بھر میں لاکھوں افراد کی طرح افغان بھی ایک دوسرے اور بیرونی دنیا کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے واٹس ایپ پر انحصار کرتے ہیں۔

طالبان آرمی کی سیکنڈ رجمنٹ کے ایک کمانڈر قندوزی نے کہا کہ جنگ کے دوران طالبان جنگجوؤں نے سرکاری چوکیوں پر حملہ کرتے وقت تصاویر لیں اور انہیں واٹس ایپ پر اپنے اعلیٰ حکام اور شورش کے میڈیا ونگ کے ساتھ شیئر کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ واٹس ایپ ایک آسان ٹول تھا اور ای میل کے ذریعے ویڈیوز اور تصاویر بھیجنے میں بہت کام اور وقت لگتا تھا۔

جب سے طالبان نے اقتدار پر قبضہ کیا ہے، گروپ کی صفوں میں واٹس ایپ کی مقبولیت اور رسائی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سابق طالبان جنگجوؤں نے چوبیس گھنٹے اپنے اسمارٹ فونز کا استعمال شروع کر دیا تھا اور اب انہیں ڈر نہیں تھا کہ مغربی افواج ڈرون حملوں میں ان کا سراغ لگانے یا انہیں نشانہ بنانے کے لیے سگنل کا استعمال کر سکتی ہیں۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اکاؤنٹس بند کرنے کا بلی اور چوہے کا کھیل طالبان انتظامیہ کے عہدیداروں کے لیے درد سر بن چکا ہے جو تقریبا روزانہ کی یاد دہانی ہے کہ وہ جس حکومت کی قیادت کر رہے ہیں وہ عالمی سطح پر نظر اندازکی جارہی ہے۔

کسی بھی غیر ملکی حکومت نے افغانستان میں طالبان انتظامیہ کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔ امریکی حکومت کی جانب سے افغان مرکزی بینک کے اربوں ڈالر کے اثاثے منجمد کرنے سے معیشت متاثر ہوئی ہے۔ سفری پابندیوں کی وجہ سے طالبان رہنماؤں کو بیرون ملک کچھ معزز شخصیات سے ملنے سے روک دیا گیا ہے۔ ٹوئٹر اور یوٹیوب سمیت کچھ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے طالبان ارکان کو ان کے استعمال کی اجازت دی ہے ، لیکن ملک کی سب سے مقبول میسجنگ ایپ تکنیکی طور پر حد سے باہر ہے۔

شمالی افغانستان کے صوبہ تخار میں پولیس کے ترجمان عبدالمبین صافی نے طالبان انتظامیہ کو امارت اسلامیہ افغانستان قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاس امارت اسلامیہ سے تعلق رکھنے والے 50 افراد کا ایک گروپ ہے اور اس میں موجود 40 سے 45 واٹس ایپ نمبرز کو بلاک کر دیا گیا ہے۔

اس کے باوجود، جن کے اکاؤنٹس بند کر دیے گئے ہیں، ان میں سے بہت سے لوگوں نے نئے سم کارڈ خرید کر نئے اکاؤنٹ کھولے ہیں، اور اس پابندی کو مزید Whac-A-Mole کے کھیل میں تبدیل کر دیا ہے۔

afghanistan

WhatsApp

Taliban