فوجی عدالتوں کیخلاف حکم امتناع سے سپریم کورٹ کا انکار، مقدمات کا ریکارڈ طلب
فوجی عدالتوں کے خلاف درخواستوں کی سماعت سے قبل ہی سپریم کورٹ میں 9 رکنی بینچ ٹوٹ گیا، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق نے بینچ پر اعتراض کرتے ہوئے علیحدگی اختیار کرلی۔ عدالت نے لطیف کھوسہ کی فوری حکم امتناع جاری کرنے کی استدعا فی الحال مسترد کرتے ہوے 9 مئی کے واقعات میں گرفتار ہونے والے تمام افراد کا ڈیٹا طلب کرلیا اور سماعت کل تک ملتوی کردی۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 9 رکنی لارجر بینچ میں شامل نامزد چیف جسٹس قاضی فاٸز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود کے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے فیصلے تک مقدمہ سننے انکار کے بعد 7 رکنی بینچ نے 9 مٸی سے متعلق خصوصی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی۔
مزید پڑھیں: سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے فوجی عدالتوں کے قیام کو چیلنج کردیا
7 رکنی لارجر بینچ میں جسٹس سردار طارق، جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منصورعلی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہرنقوی اور جسٹس عائشہ ملک بھی بینچ میں شامل تھے۔
”کسی نے میرے بیٹھنے پر اعتراض اٹھانا ہے تو ابھی اٹھائے“
سماعت کا دوربارہ آغاز ہوا تو جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کسی نے میرے بیٹھنے پر اعتراض اٹھانا ہے تو ابھی اٹھائے، اٹارنی جنرل صاحب اعتراض ہے تو میں کیس نہیں سنتا، جس پر اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ ہمیں آپ پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔
جس پر اعتزاز احسن کے وکیل وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ کسی کو آپ کی بینچ میں شمولیت پر کوئی اعتراض نہیں ہے، ملک میں آرٹیکل 245 کا نفاذ کیا گیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ وفاقی حکومت نے آرٹیکل 245 کے نفاذ کے خاتمے کا نوٹیفکیشن کردیا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ موسم گرما کی تعطیلات چل رہی ہیں دلائل مختصر رکھے جائیں، چھٹیوں میں کچھ بینچ صوبائی رجسٹریوں میں بھی جاتے تھے، ان ساری باتوں کو ذہن میں رکھیں۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل شعیب شاہین روسٹرم پر آئے اور اپنے دلائل میں کہا کہ ہماری درخواست پر کچھ اعتراضات لگائے گئے تھے۔
”ابھی ہم وہ سننا نہیں چاہتے ابھی فوکس فوجی عدالتوں عدالتیں ہیں“
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ آپ کی درخواست میں کچھ سیاسی نوعیت کی استدعائیں موجود تھیں، ابھی ہم وہ سننا نہیں چاہتے ابھی فوکس فوجی عدالتیں ہیں۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ آرٹیکل 245 نافذ ہونے کے بعد ہائیکورٹس کا 199 کا اختیار ختم ہوگیا ہے۔ جس پر جسٹس یحیی آفریدی نے کہا کہ فوج طلبی کا وہ نوٹیفکیشن واپس ہوچکا ہے۔
لطیف کھوسہ نے مزید کہا کہ فارمیشن کمانڈرز کانفرنس میں کہا گیا کہ 9 مئی کے ناقابل تردید شواہد ہیں۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ ناقابل تردید شواہد موجود ہیں اس لیے ٹرائل ملٹری کورٹ میں ہوگا؟ جس پر لطیف کھوسہ نے بتایا کہ جی پریس ریلیز میں یہ ہی کہا گیا۔
لطیف کھوسہ نے کمرہ عدالت میں پریس ریلیز پڑھ کے سنادی
جس کے بعد اعتزاز احسن کے وکیل لطیف کھوسہ نے کمرہ عدالت میں پریس ریلیز پڑھ کر سنادی۔
جسٹس عمر عطاء بندیال نے استفسار کیا کہ کیا سویلینز کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں چل رہا ہے؟ جس پر وکیل لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ بالکل سویلینز کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں شروع ہوچکا ہے۔
”سویلینز کا ٹرائل یا تو کوئی کرنل کرے گا یا پھر بریگیڈیر“
لطیف کھوسہ نے مزید کہا کہ قومی سلامتی اجلاس کے اعلامیے میں ناقابل تردید شواہد موجود ہونے کا کہا گیا، سویلینز کا ٹرائل یا تو کوئی کرنل کرے گا یا پھر بریگیڈیر۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے استفسار کیا کہ یہ جو آپ پڑھ رہے ہیں اس میں آئی ایس پی آر کا نام کہاں لکھا ہے؟ جس پر وکیل لطیف کھوسہ نے بتایا کہ یہ آئی ایس پی آرکا ہی جاری کردہ اعلامیہ ہے، کابینہ نے آئی ایس پی آر کے اعلامیے کی کھل کر توثیق کی۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ انسداد دہشت گردی عدالت سے درخواست کرکے کیسز فوجی عدالتوں میں منتقل کرنے کا کہا گیا، جس نے بھی تنصیبات پر حملہ کیا ان سے میری کوئی ہمدردی نہیں ہے، جس نے جو جرم کیا ہے اس کو قانون کے مطابق سزا ملنی چاہیئے۔
”ہمیں دکھائیں کہ ٹرائل کہاں شروع ہوا؟“
جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ یہ سب بیانات ہیں ہمیں دکھائیں کہ ٹرائل کہاں شروع ہوا؟۔
لطیف کھوسہ نے انسداد دہشت گردی عدالتوں سے ملزمان کی حوالگی کے فیصلے پڑھنا شروع کردیے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ جو لوگ متاثرہ ہیں کیا انہوں نے سپریم کورٹ سے براہ راست رجوع کیا، جس پر وکیل لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ میرے پاس اس قسم کی معلومات نہیں ہیں۔
وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ فی الحال کسی متاثرہ شخص نے ملٹری کورٹس کے خلاف رجوع نہیں کیا۔
”کیا ملٹری کورٹس سے متعلق قانون چیلنج ہوسکتا ہے؟“
جسٹس یحیی آفریدی نے پوچھا کہ جس قانون کے تحت فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہونا ہے کیا اسے چیلنج کیا؟
جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کیا ملٹری کورٹس سے متعلق قانون چیلنج ہوسکتا ہے؟۔
وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے خلاف مقدمہ کون سنے گا، سپریم کورٹ کو تو لوگ مان ہی نہیں رہے۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آپ ہمیں آرمی ایکٹ اور ملٹری کورٹس کے رولز بتائیں کیونکہ ہمارے پاس کوئی کتاب نہیں۔
جسٹس یحیی آفریدی نے کہا کہ ملٹری ٹرائل کے لیے کتنے لوگوں کے نام گئے ہیں وہ بتادیں۔ جس پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہمیں علم ہے کہیں سے 20 تو کہیں سے 10مقدمات بھیجے گئے ہیں۔
جسٹس یحیی آفریدی نے کہا کہ مطلب آپ عمومی طور پر بتارہے ہیں، فیکٹس نہیں تو کیسے آگے کیسے چلائیں گے۔
جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہا کہ جو تمام مقدمات بنائے ان کا سننے کا اختیار تو انسداد دہشت گردی عدالت کو پہلے ہی سے حاصل ہے۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہمارا یہی مؤقف ہے کہ کیسز اے ٹی سی میں چلیں فوجی عدالتوں میں نہیں، 9 مئی کے واقعات کی آڑ میں ہزاروں افراد کو گرفتار کیا گیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم چاہ رہے ہیں کہ صرف حقائق میں رہیں، جو مقدمات درج ہوئے ان میں متعدد نام ہیں، مقدمات میں کچھ پولیس اہلکاروں کے نام کیوں شامل کیے گئے؟۔
جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ کتنے لوگوں کے خلاف مقدمات درج کیے گئے اور کتنے افراد گرفتار ہوئے؟۔ جس پر وکیل لطیف کھوسہ نے بتایا کہ 10 مئی کو پہلے 50 افراد گرفتار ہوئے، پورے ملک سے 10 مئی کو 4 ہزار افراد گرفتار ہوئے، کسی فرد کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت مقدمات درج نہیں ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ جو انہوں نے عدالت میں سویلینز کے کیس فوجی عدالتوں میں منتقلی کی درخواست دی وہ دکھا دیں۔
جسٹس یحیی آفریدی نے کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ درخواست کے ساتھ جو چیزیں لگائیں وہ مکمل نہیں۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ اے ٹی سی یہ بھی کہہ سکتی ہے کہ ہم ان افراد کو فوجی عدالتوں کے حوالے نہیں کرسکتے، جس پر وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ انسداد دہشت گردی عدالت میں تو کوئی پیش ہی نہیں ہوا۔
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ آرمی ایکٹ کے آرٹیکل 549 میں تو یہ ہے کہ متعلقہ افراد کو ان کے متعلقہ ڈیپارٹمنٹ کے حوالے کیا جائے۔
جس پر اعتزاز احسن کے وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ یہی سوال لے کرآئے ہیں کہ کیسے نجی افراد کو فوجی عدالتوں میں بھیجا جا رہا ہے۔
اعتزاز احسن کے وکیل لطیف کھوسہ کے دلاٸل مکمل ہونے پر چیف جسٹس نے کہا کہ کل فیصل صدیقی ایڈوکیٹ دلاٸل دیں گے۔
سپریم کورٹ نے لطیف کھوسہ کی استدعا مسترد کردی
وکیل لطیف کھوسہ نے ٹرائل کے خلاف حکم امتناع جاری کرنے کی استدعا کی تو سپریم کورٹ نے فوری حکم امتناع جاری کرنے کی استدعا مسترد کردی۔
وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہمارے گھروں میں حملے ہورہے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ رلیکس کریں جذباتی نہ ہوں، ہر چیز کا جواب حکم امتناع نہیں ہوتا، سویلین عدالت ہو یا فوجی عدالت، ملزمان کو وکلاء مقرر کرنے کا حق حاصل ہے۔
9 مئی کے واقعات پر گرفتار تمام افراد کا ڈیٹا طلب
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ وکلاء کو ہراساں کیا جارہا ہے، دوسرا پوائنٹ صحافیوں سے متعلق ہے، آپ ان کے بارے بھی جانتے ہیں ان کو بھی رہا ہونا چاہیئے۔
سپریم کورٹ نے 9 مئی کے واقعات پر گرفتار تمام افراد کا ڈیٹا طلب کرلیا۔
چیف جسٹس نے کہا ک اٹارنی جنرل کا مؤقف سن کر ہی عدالت جلد فیصلہ دے گی، ٹیلی فونز اور میٹنگز کی ریکارڈنگ کی جا رہی ہیں، امید ہے ابھی تک ملٹری کورٹ میں ٹراٸل نہیں ہوا ہوگا۔
بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے کیس کی مزید سماعت کل صبح ساڑھے 9 بجے تک ملتوی کردی۔
”عدالتوں کو سماعت کا دائرہ اختیار آئین کی شق 175 دیتا ہے“
اس سے قبل سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف دائر درخواستوں پر آج صبح سماعت کا آغاز ہوا تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل آپ روسٹرم پر آئیں کچھ کہنا چاہتا ہوں، عدالتوں کو سماعت کا دائرہ اختیار آئین کی شق 175 دیتا ہے، صرف اور صرف آئین عدالت کو دائرہ سماعت کا اختیار دیتا ہے، ہر جج نے حلف اٹھایا ہے کہ وہ آئین اورقانون کے تحت سماعت کرے گا۔
مزید پڑھیں: سویلین مقدمات ملٹری کورٹ میں چلانے کیلئے آئین کی تشریح کی ضرورت ہے، پشاور ہائیکورٹ
”مجھے تعجب ہوا کہ رات کو کاز لسٹ میں نام آیا“
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ واضح کرنا چاہتا ہوں کل مجھے تعجب ہوا کہ رات کو کاز لسٹ میں نام آیا، مجھے اس وقت کاز لسٹ بھجی گئی، پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کو قانون بننے سے پہلے 8 رکنی بینچ نے روک دیا تھا۔
جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے مزید کہا کہ کیوں کہ اس قانون پر فیصلہ نہیں ہوا اس پر رائے نہیں دوں گا، پہلے ایک 3 رکنی بینچ جس کی صدرات میں کررہا تھا، 5 مارچ والے فیصلے 31 مارچ کو ایک سرکلر کے ذریعے ختم کردیا جاتا ہے، ایک عدالتی فیصلے کو رجسٹرار کی جانب سے نظر انداز کیا گیا، یہ عدالت کے ایک فیصلے کی وقعت ہے، پھر اس سرکلر کی تصدیق کی جاتی ہے، پھر اس سرکلر کو واپس لیا جاتا ہے، اس پر معزز چیف جسٹس نے مجھ سے دریافت کیا کہ کیا چیمبر ورک کرنا چاہتا ہوں؟
”میرے چیمبر ورک کرنے کا جواب چیف جسٹس بہتر دے سکتے ہیں“
انہوں نے کہا کہ میرے سامنے آیا کہ حلف کی پاسداری کرکے بینچ میں بیٹھوں؟ میں نے حالات کو دیکھ کر چیمبر ورک شروع کیا، چیمبر ورک کے بارے میں پوچھنے پر تو 5 صفحات کا نوٹ لکھ کر بھیجا، اس وجہ سے چہ مگوئیاں شروع ہوجاتی ہے ، میرے دوست مجھ سے قابل ہیں لیکن میں اپنے ایمان پر فیصلہ کروں گا، اس 6 ممبر بینچ میں اگر نظرثانی تھی تو مرکزی کیس کا کوئی جج شامل کیوں نہیں تھا؟
جسٹس قاضی فائز نے مزید کہا کہ میرے چیمبر ورک کرنے کا جواب چیف جسٹس بہتر دے سکتے ہیں، یہ میں نے اپنے نوٹ میں لکھا، میں اپنا نوٹ اپنے معزز ججز سے شیئر کرتا ہوں، اس دوران حکومت نے انکوائری کمیشن بنایا جس کا مجھے سربراہ بنایا گیا، پھر اس کمیشن کو عدالت نے کام کرنے سے روک دیا۔
جسٹس فائز عیسیٰ اور جسٹس طارق مسعود کی معذرت
سپریم کورٹ کا 9 رکنی بینچ ٹوٹ گیا، 9 رکنی بینچ میں شامل 2 ججز نے کیس کی سماعت سے معذرت کرلی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 9 رکنی لارجر بینچ میں بیٹھنے سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ پریکٹس اینڈپروسیجربل کافیصلہ آنے تک بینچ میں نہیں بیٹھوں گا، میں اس بینچ سے اٹھ رہا ہوں، سماعت سے انکار نہیں کررہا، میں آج کی عدالت کو نہیں مانتا۔
جسٹس طارق مسعود نے بھی کیس سننے سے معذرت کرلی۔ بینچ کورٹ روم نمبر ایک سے اٹھ کر چلا گیا۔
جسٹس طارق مسعود نے کہا کہ میں قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ اتفاق کرتا ہوں، ہم ان درخواستوں پر فیصلہ کریں گے، پہلے ان درخوستوں کو سنا جائے، اگر اس کیس میں فیصلہ حق میں آتا ہے تو اس کیس اپیل 8 جج کیسے سنیں گے۔
سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ یہ معاملہ 25 کروڑ عوام کا ہے۔ جس پر جسٹس طارق مسعود نے ریمارکس دیے کہ یہ معاملہ جب آئے گا تو دیکھ لیں گے۔
اعتزازاحسن نے کہا کہ جناب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اس کیس میں بیٹھ کر سماعت کریں، یہ اہم کیس ہے۔
قاضی صاحب کو کیس سننا چاہیئے، اس کا کچھ کرتے ہیں، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمارے 2 ججز نے پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کی بنیاد پر اعتراض کیا ہے لیکن ان کویہ معلوم نہیں کہ اٹارنی جنرل نے وقت لیا ہے اس کیس میں، کیا پتہ اس میں اسٹے ختم ہوسکتا ہے، اس کیس میں مخلوق خدا کہ حق میں فیصلہ ہو، قاضی صاحب کو کیس سننا چاہیئے، اس کا کچھ کرتے ہیں۔
چیف جسٹس نے 7 رکنی نیا بینچ تشکیل دے دیا
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس طارق مسعود کے 9 رکنی بینچ سے علیحدہ ہونے کے بعد چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے 7 رکنی نیا بینچ تشکیل دے دیا۔
عدالتی عملے کے مطابق سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت ڈیڑھ بجے ہوگی۔
گزشتہ روز سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر 9 رکنی لارجربینچ تشکیل دیا تھا۔
مزید پڑھیں: وزارت دفاع نے 5 خصوصی عدالتوں کے قیام کی تجویز دے دی
خیال رہے کہ سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ، سینیئر وکیل اعتزاز احسن، کرامت علی اور چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے درخواستیں دائر کر رکھی ہیں۔
درخواست گزاروں نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کو غیر آئینی قرار دینے کی استدعا کر رکھی ہے۔
واضح رہے کہ حکومت نے9 مئی کے واقعات کے بعد فوجی تنصیبات کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف مقدمات ملٹری کورٹ میں چلانے کا فیصلہ کیا تھا اور متعدد افراد کے مقدمات فوجی عدالت میں بھجوائے جا چکے ہیں۔
اس سے قبل آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی سربراہی میں ہونے والی فارمیشن کمانڈرز کانفرنس کے دوران اس عزم کا اظہارکیا گیا تھا کہ نو مئی کے واقعات میں ملوث افراد اوران کے سہولت کاروں اورماسٹرمائنڈز کو کٹہرے میں لایا جائے گا۔
Comments are closed on this story.