جرمن اخبار کا صحافیوں کی نوکری مصنوعی ذہانت کو دینے کا اعلان
یورپ میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والے جرمنی کے ایک اخبار ”بِلڈ“ نے اپنے 100 ملین یورو کے اخراجات میں کٹوتی کے پروگرام کے حصے کے طور پر مختلف ادارتی ملازمتوں کو مصنوعی ذہانت سے تبدیل کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔
بلڈ اپنے علاقائی اخباری کاروبار کو دوبارہ منظم کر رہا ہے جس کے نتیجے میں سینکڑوں افراد کے بیروزگار ہونے کی توقع ہے۔
اخبار کے مالک اور یورپ کے سب سے بڑے میڈیا پبلشر ”ایکسل اسپرنگر ایس ای“ نے عملے کو بھیجی گئی ایک ای میل میں کہا، ’اخبار بدقسمتی سے ان ساتھیوں سے خود کو لاگ کرلے گا جن کے پاس ایسے کام ہیں جو ڈیجیٹل دنیا میں مصنوعی ذہانت یا خود کار طریقے سے انجام پاتے ہیں‘۔
ای میل میں کہا گیا ہے کہ ’ایڈیٹرز، پرنٹ پروڈکشن اسٹاف، سب ایڈیٹرز، پروف ریڈرز اور فوٹو ایڈیٹرز کے کردار اب اس برح موجود نہیں رہیں گے جیسا کہ وہ آج ہیں‘۔
یہ پیغام فروری میں چیف ایگزیکٹو میتھیاس ڈوفنر کے ایک اعلان کے بعد سامنے آیا ہے کہ پبلشر کو ”خالص طور پر ڈیجیٹل میڈیا کمپنی“ بننا ہے۔
انہوں نے کہا کہ چیٹ جی پی ٹی جیسے اے آئی ٹولز ’آزاد صحافت کو پہلے سے بہتر بنا سکتے ہیں یا اس کی جگہ لے سکتے ہیں‘۔
انہوں نے پیش گوئی کی کہ اے آئی جلد ہی انسانی صحافیوں کے مقابلے میں ”معلومات کے مجموعے“ میں بہتر ہو جائے گا اور کہا کہ صرف وہی پبلشرز باقی رہیں گے جو ”بہترین اصل مواد“ تخلیق کریں جیسا کہ تحقیقاتی صحافت اور اصل کمنٹری۔
اس سے قبل بز فیڈ نے اعلان کیا تھا کہ اس کا مقصد اے آئی کو مواد اور آن لائن کوئزز کو ”بڑھانے“ کے لیے استعمال کرنا ہے، جب کہ برطانیہ میں ڈیلی مرر اور ڈیلی ایکسپریس بھی مصنوعی ذہانت کے استعمال کیلئے کوشاں ہیں۔
اے آئی ٹولز جیسے ChatGPT صارف کے سادہ اشارے سے انتہائی نفیس متن تیار کر سکتے ہیں، یہ مضامین اور نوکری کی درخواستوں سے لے کر نظموں اور افسانوی کاموں تک کچھ بھی تیار کر سکتے ہیں، لیکن اس کے جوابات بعض اوقات غلط یا من گھڑت ہوتے ہیں۔
Comments are closed on this story.