لاپتہ آبدوز ’ٹائٹن‘ کی تلاش کا آج آخری دن، زیرآب آوازیں سُنی گئیں
کینیڈا کے جنوب مشرق میں 111 سال قبل ڈوب جانے والےبحری جہازٹائی ٹینک کی باقیات دیکھنے کیلئے بحر اوقیانوس کی گہرائیوں میں جانے والی لاپتہ سب میرین ٹائٹن کی تلاش کا کام تیز کردیا گیا ہے، سرچ آپریشن میں شامل کینیڈا کے پی تھری طیارے ن زیر آب آوازوں کا پتا لگایا ہے۔ آبدوز میں صرف کل (جمعرات 22 جون ) تک کی آکسیجن بچی ہے۔
امریکی کوسٹ گارڈ نے تصدیق کی ہے کہ ٹائٹن کے سرچ آپریشن میں حصہ لینے والے کینیڈا کے پی تھری طیارے نے تلاش کے علاقے میں زیر آب آوازوں کا پتا لگایا ہے۔
اس سے قبل امریکی میڈیا بھی بدھ کی صبح رپورٹ کرچکا ہے کہ سرچ آپریشن میں شامل کینیڈا کے طیارے کو تلاش کے علاقے میں زیرسمندر سے آوازوں کے سگنلز موصول ہوئے ہیں۔
ایسی ای میلز سے بھی آگاہ بھی کیا جا رہا ہے جن میں کہا گیا ہے کہ کینیڈا کے ریسکیو طیارے نے 30 منٹ کے وقفے سے متعدد ایسی تیز آوازیں سنیں جہاں آبدوز لاپتہ ہوئی ہے۔
اتوار کی رات لاپتہ ہونے والی اس آبدوز میں 5 افراد سوار ہوئے جن میں پاکستان کی معروف کاروباری داؤد فیملی کے باپ بیٹا 48 سالہ شہزادہ داؤد اوران کا 19 سالہ بیٹا سلمان بھی شامل ہیں۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گہرے پانیوں میں اس سب میرین کی تلاش کا کام تیزکردیا گیا ہے، پانچوں افراد1912 میں ڈوب جانے والے دیوہیکل بحری جہازٹائی ٹینک کی باقیات دیکھنے کیلئے سیاحتی وزٹ پرگئے ہیں۔ حکام کے مطابق کاربن فائبر سے بنی سب میرین اتوار کی رات واپس آنی تھی اور نہ پہنچنے پر تلاش کا کام شروع کیا گیا۔
امریکی کوسٹ گارڈ حکام کے مطابق کئی ممالک بحری جہاز اور جنگی طیارے شمالی بحر اوقیانوس میں اب تک 10 ہزار اسکوائر میل کا رقبہ چھان چکے ہیں، تاہم تاحال لا پتہ آبدوز کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ حکام کا کہنا ہے کہ وہ ٹائٹئن نامی سب میرین کی تلاش جاری رکھیں گے۔
سرچ ٹیم کے انچارج کیپٹن جیمی فریڈرک نے بوسٹن میں ایک نیوز کانفرنس میں بتایا کہ منگل کی دوپہر تک سب میرین کے عملے کے لئے 41 گھںٹوں کی آکسیجن باقی رہ گئی تھی ۔
اتوار کو صبح 6 بجے سب میرین کی روانگی کے وقت اس میں 96 گھنٹے کی آکسیجن سپلائی موجود تھی۔ اوشین گیٹ ایکسپیڈیشن کمپنی کے ایک ایڈوائزرڈیوڈ کانکینن کے مطابق آبدوز کی آکسیجن جمعرات 22 جون تک ختم ہو جائے گی۔
ٹائی ٹینک کے ملبے والے علاقے میں زیر آب ایک روبوٹ نے ٹائٹن کی تلاش جاری رکھی ہوئی ہے، اس سمندری علاقے میں امدادی سامان پہنچانے کا کام تیز ترین کردیا گیا ہے جہاں آبدوز مل جانے کا امکان ہے۔آبدوز کی تلاش کیلئے امریکی فوج کے تین سی 130 طیاروں کی مدد بھی لی گئی ۔
آبدوز کے پائلٹ اوشین گیٹ نامی کمپنی کے سی ای او ہیں جس کی ملکیت ٹائٹن نامی سب میرین تھی۔ شہزادہ داؤد اور ان کے بیٹے کے علاوہ دیگر افراد مین برطانوی ارب پتی مہم جو ہمیش ہارڈنگ اورٹائی ٹینک کے ملبے پر تحقیق کرنے والے ایک ماہر شامل ہیں۔
گزشتہ سال ایسا ہی سفر کرنے والے صحافی ڈیوڈ پوگ کا کہنا ہے کہ سب میرین میں بیرونی رابطے کے 2 سسٹم ہیں۔ ایک ٹیکسٹ میسیج کا سسٹم، جو سطح آب پر موجود بحری جہاز کو پیغام بھیج سکتا ہے اور دوسرا ’سیفٹی پنگ نظام‘ ،جس کے تحت خود کار طور پر سب میرین سے ہر 15 منٹ پر پنگ کیا جاتا ہے تا کہ پتہ چلے کہ سب میرین کام کر رہی ہے۔
یہ دونوں نظام سب میرین کے سمندر کی سطح کے نیچے جانے کے ایک گھنٹہ 45 منٹ تک کام کرتے رہے۔
سی بی ایس نیوزکے صحافی کے مطابق ، اس کے دو انتہائی مایوس کن مطلب ہو سکتے ہیں۔، ”یا تو سب میرین کے سسٹم بند ہو گئے یا اس میں سوراخ ہو گیا ہے اور سب میرین پھٹ گئی ہے“۔
سب میرین میں ریت کے تھیلے، لیڈ پائپ اور ہوا بھرنے والے غبارے سمیت 7 بیک اپ سسٹمز موجود ہیں ، اس کے علاوہ ایک ایسا بیک اپ سسٹم بھی ہے جو تب بھی بھی کام کرتا ہے،جب سب میرین پر موجود تمام اشخاص بے ہوش ہوچکے ہوں۔
یونیورسٹی آف ایڈیلیڈ کے ڈائریکٹر ایرک فیوسل نےبیرونی سطح سے رابطہ منقطع ہونے کا امکان ظاہر کیا کہ شاید کوئی ایسی آگ لگی ہو جس سے کریو بے ہوش ہو گیا ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ٹائٹن غرق ہو جانے والے ٹائی ٹینک کی باقیات میں الجھ کر پھنس گئی ہو۔
ایرک فیوسل کا کہنا ہے کہ ، ”میں یہ سوچنا چاہتا ہوں کہ ٹائٹن کی بجلی چلی گئی لیکن وہ پھر بھی سطح سمندر پرواپس آسکتی تھی۔ جہاں ریسکیو ائرکرافٹس اور شپس کی مدد سے اسے تلاش کرنا مشکل نہ ہوتا۔“
تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ آبدوز کو ریسکیوکرنے کا کام اتنابھی آسان نہیں ہے۔
دوسری جانب وائٹ ہاؤس کی جانب سے بھی ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ صدرجوبائیڈن بھی معاملے کو دیکھ رہے ہیں۔
Comments are closed on this story.