روسی دفاعی نظام، ترکی اور بھارت پر امریکہ کی دہری پالیسی بے نقاب
روسی دفاعی نظام کے حوالے سے ترکی اور بھارت پر امریکہ کی دہری پالیسی بے نقاب ہوگئی ہے۔
وائٹ ہاؤس کی ہفتہ وار میڈیا بریفنگ کے دوران جب پینٹاگون کی ڈپٹی پریس سیکریٹری سبرینہ سنگھ سے سوال کیا گیا کہ اس ہفتے بھارتی وزیراعظم کے دورہ امریکہ کی توقع ہے اور بھارت کے پاس روس سے S-400 کے پانچ اسکواڈرن کے معاہدے ہیں۔ تو کیا آپ اس بارے میں تھوڑی سی بات کر سکتی ہیں کہ آیا امریکا کو بھارت کے روسی ہتھیاروں کے حصول کے بارے میں خدشات ہیں؟ اور کیا بھارت پر کوئی پابندیاں لگائی جاسکتی ہیں؟
جس کے جواب میں سبرینہ سنگھ نے کہا کہ ہم وزیراعظم مودی کے اس ہفتے دورہ امریکہ کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ سکریٹری آسٹن نے صرف دو ہفتے قبل بھارت کا دورہ کیا تھا اور وہاں اپنے ہم منصب سے ملاقات کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ ہم ہمیشہ دنیا بھر میں اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں سے یہ تاکید کرتے رہیں گے کہ روس کے ساتھ لین دین سے گریز کریں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم بھارت کے سازوسامان کے تنوع پر گہرا اعتماد رکھتے ہیں، اور گزشتہ دہائی کے دوران، صنعتی تعاون کی ہماری تجویز امریکہ اور بھارتی دفاعی صنعتوں کو مزید مربوط کرے گی۔ تو مجھے لگتا ہے کہ میں اسے اسی پر چھوڑ دیتی ہوں۔
ان سے ایک اور سوال کیا گیا کہ کیا آپ اس بارے میں تھوڑا سی بات کر سکتی ہیں کہ امریکہ نے S-400 حاصل کرنے کے لیے ترکی کے خلاف کچھ اقدامات کیوں کیے، جب کہ اس نے بھارت کے خلاف ایسی کوئی کارروائیاں نہیں کیں؟ کیا آپ تھوڑی بات کر سکتی ہیں کہ کیوں مختلف ممالک کے ساتھ مختلف سلوک کیا جا رہا ہے؟
ڈپٹی پریس سیکریٹری نے جواب دیا کہ ہم اپنے تمام شراکت داروں اور اتحادیوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ روس کے ساتھ لین دین سے گریز کریں۔ یہ وہ چیز ہے جسے ہم ترکی، بھارت اور دوسروں کے ساتھ دہراتے رہے ہیں۔ میرے خیال میں یہ دو بہت مختلف معاملات ہیں، اور جب بھارت کی بات آتی ہے، تو ہم ان کے سازوسامان کے تنوع اور ان کے ساتھ ضم ہونے کی ہماری صلاحیت پر پراعتماد رہتے ہیں۔
Comments are closed on this story.