Aaj News

پیر, نومبر 04, 2024  
02 Jumada Al-Awwal 1446  

ٹائٹن آبدوز کی تباہی کی تحقیقات شروع، لاشیں تاحال نہیں مل سکیں

پانچوں افراد کی موت کی تصدیق جمعرات کی شب کی گئی، آبدوز سمندر میں اترتے ہی تباہ ہوگئی تھی
اپ ڈیٹ 23 جون 2023 04:47pm
پاکستانی باپ بیٹا شہزادہ داؤد اور سلیمان
پاکستانی باپ بیٹا شہزادہ داؤد اور سلیمان

اوشین گیٹ کمپنی کی آبدوز نما گاڑی ٹائٹن سب کی تباہی کی تحقیقات شروع کردی گئی ہے تاہم اس حادثے میں ہلاک ہونے والے پاکستانی باپ بیٹے سمیت پانچوں افراد کی لاشیں تاحال نہیں سکیں۔

آبدوز کمپنی اوشین گیٹ نے جمعرات کی شب ٹائی ٹینک کا ملبہ دیکھنے کیلئے جانے والی سب میرین ٹائٹن میں سوار پانچوں افراد کی موت کی تصدیق کی تھی۔

پاکستان کے شہزادہ داؤد اور ان کے بیٹے سلیمان کے لواحقین نے بھی اموات کی تصدیق کی۔ داؤد خاندان نے دو بیانات جاری کیے جن میں سے ایک میں کہا گیا کہ اس سانحے نے لوگوں کا بہترین اور بھیانک کردار بے نقاب کیا ہے۔

بے نقاب کیا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹائٹن سب پھٹ کر تباہ ہوئی اور یہ واقعہ اس کے سمندر میں اترنے کے تقریباً پونے دو گھنٹے بعد پیش آیا یہ وہی وقت ہے جب اس کا رابطہ سطح سمندر پر موجود جہاز سے منقطع ہوا تھا اور ب امریکی بحریہ نے اپنے نگرانی کے نظام میں ایک دھماکے کی آواز ریکارڈ کی۔ امریکی بحریہ کے مطابق یہ معلومات فوری طور پر کوسٹ گارڈز کو فراہم کردی گئی تھیں۔

امریکی کوسٹ گارڈز کے ریئر ایڈمل جان ماگر جو آبدوز کی تلاش میں پیش پیش ہیں نے جمعہ کے روز کہا کہ تحقیقات کار یہ معلوم کرنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں کہ ٹائٹن کے ساتھ کیا واقعہ پیش آیا۔ ’مجھے معلوم ہے یہ واقعہ کیسے، کیوں اور کب پیش آیا جیسے بہت سے سوالات ہیں۔ ہم ان سوالات کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات جمع کریں گے۔‘

امریکی ریئر ایڈمرل نے کہا کہ یہ بہت پیچیدہ واقعہ ہے جو سمندر کے دور دراز علاقے میں پیش آیا۔

اس سے قبل جان ماگر نے کہا تھا کہ ٹائٹن میں سوار افراد کی لاشیں تلاش کرنا بہت مشکل ہے۔

امریکی کوسٹ گارڈ حکام نے بتایا کہ 22 فٹ (6.7 میٹر) ٹائٹن کے پانچ بڑے ٹکڑے پائے گئے ہیں، جن میں جہاز کی دم کا کون اور پریشر ہل کے دو حصے شامل ہیں۔ یہ ملبہ سمندر کی تہہ میں پڑے ٹائیٹینک جہاز سے 1600 فٹ دور ملا تھا۔

ریئر ایڈمرل جان ماگر کا کہنا تھاکہ ’ملبہ گاڑی کے تباہ کن گرنے سے مطابقت رکھتا ہے“۔یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ یہ حادثہ کب پیش آیا۔

اوشن گیٹ ایکسپیڈیشنز نے ایک بیان میں کہا کہ ”یہ افراد حقیقی ایکسپلورر تھے جو مہم جوئی کا منفرد جذبہ رکھتے تھے، اس افسوسناک وقت میں ہمارے دل ان پانچوں روحوں اور ان کے اہل خانہ کے ہر فرد کے ساتھ ہیں۔“

اوشن گیٹ کی جانب سے یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا جب چند منٹ قبل ہی سی این این نے کہا تھا کہ ٹائی ٹینک کے ملبے کے قریب ایک اور ملبے کے آثار ریموٹ کنٹرول گاڑی کی مدد سے دریافت ہوئے ہیں اور ریسکیو آپریشن میں شامل ماہرین اس کا جائزہ لے رہے ہیں۔

امدادی کارکنوں کے اصرار پر آبدوز کی آکسیجن ختم ہونے کے خدشے کے باوجود ملٹی نیشنل مشن اب بھی عملے کو زندہ تلاش کرنے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے تھے۔

تاہم امریکی کوسٹ گارڈز کے ریئر ایڈمرل ماگر نے بتایا کہ ٹائٹن سبمرسیبل کا ملبہ ٹائی ٹینک سے 1600 فٹ کے فاصلے پر ملا ہے۔

لاشیں تلاش کرنا مشکل

امریکی کوسٹ گارڈز اور دیگر ٹیموں کو تاحال لاشیں نہیں ملیں۔ امریکی ریئر ایڈمرل کا کہنا تھا کہ وہ لاشوں کو تلاش کرنے اور نکالنے کے حوالے سے کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ جس جگہ ملبہ ملا وہاں انتہائی دشوار ماحول ہے۔

امدادی ٹیموں کو وہ مرکزی خول بھی نہیں ملا جو ٹائی ٹن سب کا مرکزی حصہ تھا تاہم ریئر ایڈمرل کے مطابق اس بات کے ٹھوس شواہد ہیں کہ یہ آبدوز ہولناک دھماکے سے پھٹ کر تباہ ہوئی۔

ماہرین کے مطابق کوسٹ گارڈز کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ آبدوز میں سوار افراد پہلے دن ہی ہلاک ہو گئے تھے اور انہیں چار دن تک اذیت ناک موت کا انتظار نہیں کرنا پڑا۔

اس سے قبل امریکی کوسٹ گورڈ نے اپنی ٹویٹ میں بتایا تھا کہ کینیڈا کے ایک بحری جہاز سے تعینات بغیر پائلٹ کے گہرے سمندر میں تعینات روبوٹ نے زمین سے ڈھائی میل (4 کلومیٹر) نیچے ایک ’ملبے کا میدان‘ دریافت کیا ہے۔ ایجنسی نے اس حوالے سے سہ پہر 3 بجے ایک پریس کانفرنس کا اعلان کیا ہے۔

ہزاروں مربع میل پر آپریشن

متعدد ممالک کی امدادی ٹیموں نے 22 فٹ (6.7 میٹر) ٹائٹن کے سُراغ کیلئے طیاروں اور بحری جہازوں کے ساتھ ہزاروں مربع میل کھلے سمندر میں کئی دن گزارے۔

کوسٹ گارڈ کا کہنا ہے کہ ملبہ ٹائی ٹینک کے قریب آر او وی (ریموٹ آپریٹڈ وہیکل) کو تلاش کے علاقے میں ملا۔

ٹائٹن سب میرین کی تلاش کے لیے جمعرات کو مزید دو روبوٹ تعینات کیے گئے جو شمالی بحر اوقیانوس کے ایک وسیع حصے میں سمندر کی سطح کے درمیان اور دو میل (تقریبا چار کلومیٹر) نیچے کہیں لاپتہ ہوئی ۔

آبدوزمیں 96 گھنٹے کی آکسیجن موجود تھی جو جمعرات کی علی الصبح ختم ہو گئی ہوگی۔

امریکی میڈیا کے مطابق امریکی کوسٹ گارڈ نے کہا کہ کینیڈین طیارے نے جہاں آبدوز کو تلاش کیا جارہا تھا وہاں سمندر کے اندر شورمحسوس کیا تھا جس کے بعد انہوں نے اپنی توجہ اس جانب مرکوز کرلی لیکن یہ تعین نہیں کیا جاسکا کہ آخر آواز کہاں سے آرہی تھی۔

امریکی کوسٹ گارڈ کے ریئرایڈمرل جان ماگر نے سی این این کو بتایا تھا کہ ہم تلاش کو جاری رکھنے ہوئے ہیں اور اب مزید تہہ تک جاکر تلاش کرنے کی کوش کریں گی۔

ایڈمرل جان ماگر کا کہنا تھا کہ ”ہم اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہرممکن کوشش کر رہے ہیں کہ ہم آبدوز میں سوار افراد کو تلاش کرکے بچا سکیں،“

مذکورہ پیش رفت کے بعد آبدوز کوتلاش کرنے کے عمل میں تیزی دیکھی گئی اور سمندر کی تہہ تک جانے والے روبوٹس کو بھی استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا، جو زیرِ آب 6 ہزار میٹر تک کی گہرائی تک جانے کی صلاحیت رکھتا ہے

ایکسپلورز کلب کے مطابق آبدوز کی تلاش میں ریموٹلی آپریٹڈ وہیکلز (آر او وی) یا سندر کی تہہ میں کام کرنے والے روبوٹس برطانیہ کی میگیلن کمپنی نے فراہم کیے۔

کلب کے صدر رچرڈ گیریئٹ کا کہنا ہے کہ یہ روبوٹس چھ ہزار میٹر کی گہرائی تک جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، جو اس سے قبل ٹائٹینک کے ملبے تک جاچکے ہیں۔

ماہرین اور پہلے سفر کرنے والے مسافروں کا کہنا تھا کہ ٹائٹن نامی آبدوز میں موجود افراد جس حالات سے گذر رہے ہیں، وہ انتہائی خطرناک ہے۔ آبدوز کوسطح سمندر سے تقریباً 4,000 میٹر نیچے ہونے کی وجہ سے دباؤ کا سامنا تھا جس کی وجہ سے آبدوز سے رابطہ ہونا ممکن نہیں ۔

یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ آبدوزکے ساتھ کیا ہوا ہے ، ماہرین نے سوالات اٹھائے ہیں کہ آیا تمام مناسب حفاظتی اقدامات پرعمل کیا گیا تھا یا نہیں۔

لاپتہ ٹائٹن نامی آبدوز کو بنانے والے اسٹاکٹن رش بھی مسافروں میں شامل تھے۔ جن کے پاس انجینئرنگ کا کئی دہائیوں کا تجربہ تھا۔

ٹائٹن میں گزشتہ برس سفر کرنے والے ایک مسافر نے بی بی سی کو بتایا کہ میں اس کمپنی کے آبدوز میں تین مرتبہ سفر کرچکا ہوں اور ہر مرتبہ ہی رابطہ منقطع ہوجاتا ہے۔

ٹائٹن نامی آبدوز تقریباً 1,450 کلومیٹر مشرق اور نیو فاؤنڈ لینڈ کے دارالحکومت سینٹ جانز سے 643 کلومیٹر جنوب میں تھی۔

امریکی کوسٹ گارڈ کے اندازوں کےاتوار کے دن سفر کے آغاز کے ایک گھنٹہ 45 منٹ بعد ہی اس آبدوز سے رابطہ منقطع ہوگیا تھا۔ ؔ پاکستان کے بڑے کاروباری خاندان کے رکن اور برطانیہ میں ’پرنس ٹرسٹ چیریٹی‘ کے بورڈ ممبر48 سالہ شہزادہ داؤد اپنے 19 سالہ بیٹے سلیمان کے ساتھ اُس لاپتہ آبدوز میں سوار تھے۔

داؤد فیملی نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’ہمارے بیٹے شہزادہ داؤد اور اُن کے بیٹے سلیمان نے بحر اوقیانوس میں ٹائیٹینک کی باقیات کو دیکھنے کے لیے سفر کا آغاز کیا تھا۔ فی الحال اُن کی سب میرین کرافٹ (چھوٹی آبدوز) سے رابطہ منقطع ہو چکا ہے اور اس کے بارے میں دستیاب معلومات محدود ہیں“۔

داؤد خاندان کا شمار پاکستان کے امیر ترین خاندانوں کیا جاتا ہے ، ان کے برطانیہ کے ساتھ بھی گہرے روابط ہیں۔

واضح رہے کہ ٹائٹینک اپنے وقت کا سب سے بڑا بحری جہاز تھا، جو 1912 میں امریکی شہر نیو یارک جاتے ہوئے اپنے پہلے ہی سفر پر ایک برفانی تودے سے ٹکرا کر ڈوب گیا تھا۔ جس میں 2200 مسافروں اور عملے کے اراکین میں سے 1500 سے زیادہ ہلاک ہو گئے تھے۔ جہاز کا ملبہ 1985 میں پہلی بار دریافت کیا گیا تھا۔

پیر کے روز معلوم ہوا کہ ٹائی ٹینک کے ملبے کو تلاش کرنے جانے والی آبدوز ’ٹائٹن‘ جنوب مشرقی کینیڈا کے ساحل سے لاپتہ ہوگئی ہے۔

بوسٹن میں امریکی کوسٹ گارڈ کے لیفٹیننٹ جورڈن ہارٹ نے بتایا تھا کہ نیو فاؤنڈ لینڈ کے ساحل پرآبدوز کی تلاش کے لئے آپریشن کیا جارہا ہے۔

اسی حوالے سے ایک کمپنی OceanGate Expedition جو گہرے سمندر میں آبدوزوں کو تعینات کرتی ہے، اس نے اپنی ویب سائٹ اور سوشل میڈیا فیڈز پربتایا کہ ٹائی ٹینک کا ملبہ نیو فاؤنڈ لینڈ کے ساحل سے تقریباً 400 میل دور واقع ہے۔

اس ماہ کے آغاز میں کمپنی نے ٹویٹر پرکہا تھا کہ وہ ٹائی ٹینک کوتلاش کرنے جانے سے قبل رابطہ برقرار رکھنے میں مدد کے لیے سیٹلائٹ کمپنی سٹار لنک کا استعمال کر رہی ہے۔

کمپنی نے اپنی ٹوئٹ میں کہا کہ شمالی بحر اوقیانوس کے وسط میں ہونے کے باوجود ہمارے پاس انٹرنیٹ کنیکشن ہے، جو ہمیں اپنے ٹائی ٹینک ڈائیو آپریشنز کو کامیاب بنانے کے لیے درکار ہے۔

اس کے علاوہ کمپنی کی ویب سائٹ ٹائی ٹینک کے ملبے کو دیکھنے کے لیے سات راتوں پر مشتمل ایک پیکچ کا اشتہاردیتی ہے جس کی قیمت ڈھائی لاکھ ڈالر مقرر کی گئی تھی۔

Titanic

Submarine

Titanic Wreck