Aaj News

ہفتہ, نومبر 02, 2024  
29 Rabi Al-Akhar 1446  

عبداللہ شاہ غازی مزار یا سائنسی وجوہات، کراچی ہر بار سمندری طوفان سے کیوں بچ جاتا ہے؟

انگریزوں کی لکھی گئی کتابوں میں عبداللہ شاہ غازی کے مزار کا ذکر ملتا ہے
اپ ڈیٹ 16 جون 2023 11:21am
فوٹو — فائل
فوٹو — فائل

بحیرہ عرب میں بننے والے سمندری طوفان ’بپر جوائے‘ کا آغاز ہوا تو اس کا رُخ کراچی کی جانب تھا، اسی سلسلے میں سوشل میڈیا پر ایک نئی بثت چھڑ گئی کہ یہ طوفان شہر قائد سے ٹکرائے یا نہیں۔

یہ بات واضح ہے کہ 1990 کے بعد سے آنے والے سمندری طوفان کراچی پہنچنے سے پہلے ہی اپنا رخ تبدیل کرنے پر مجبور ہوئے یا تو طوفان کی شدت اتنی کم ہوئی کہ اس سئ ٹکرانے کے باوجود کراچی محفوظ رہا۔

بعض افراد کا ماننا ہے کہ کراچی عبداللہ شاہ غازی کی کرامات کی وجہ سے سمندری طوفان سے بچ جاتا ہے۔

سمندری طوفان آنے کی وجہ کیا ہے؟

برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کی رپورٹ کے مطابق قائد اعظم یونیورسٹی کی پروفیسر ڈاکٹر مونا لیزا نے کہا کہ دنیا کے اکثر ممالک اس طرح کے طوفان کو روکنے کے لیے دیگر پیشگی اقدامات کے علاوہ ساحل سمندر پر دیوار تعیمر کرتے ہیں تاکہ طوفان اس دیوار سے ٹکرا کر زیادہ نقصان کا باعث نہ بنے۔

ان کے مطابق کراچی تین پلیٹس بشمول بھارتی، یوروشیا اور عریبین کی باؤنڈری پر واقع ہے جو سمندری طوفان کے لیے قدرتی رکاوٹ ثابت ہوتی ہیں۔

ڈاکٹر مونا لیزا کا کہنا تھا کہ جہاں یہ پلیٹس کراچی کے لیے اہمیت اختیار کر گئیں وہیں یہ پاکستان کے لیے بڑے خطرے کا سبب بھی ہیں یعنی ان پلیٹس کی وجہ سے ملک میں زلزلے بھی آتے ہیں۔

طوفان سے متعلق چیف میٹرولوجسٹ سردار سرفراز نے کہا کہ سائیکلون درجہ حرارت اور ہواؤں کے دباؤ کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں اور درجہ حرارت اگر اس سمندری طوفان کو جنم دیں تو ہواؤں کا دباؤ اس کے رخ کا تعین کرتا ہے۔

سائیکلون کے دورانیے کے حوالے سے ڈاکٹر مونا لیزا کا کہنا تھا کہ اس کا تعلق بھی درجہ حرارت سے ہی ہوتا ہے۔ ان کے مطابق جب سائیکلون سست پڑ جائے تو پھر اس کا دورانیہ گھنٹوں سے بڑھ کر کئی دنوں تک ہو جاتا ہے۔

’انگریزوں کی لکھی گئی کتابوں میں عبداللہ شاہ غازی کے مزار کا ذکر ملتا ہے‘

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق مؤرخ اور شہری منصوبہ بندی کے ماہر عارف حسن نے کہا کہ کراچی والوں کے لیے عبداللہ شاہ غازی پیر کی حیثیت رکھتے ہیں جنھیں شہر کا ’پیٹرن سینٹ‘ کہا جاتا ہے۔

مصنف و تجزیہ کار ندیم فاروق پراچہ نے بتایا کہ انہوں نے جتنی بھی تحقیق کی اور کتابیں پڑھیں ان میں عبداللہ شاہ غازی کے بارے میں ایسی تفصیلات درج نہیں۔ ان کی رائے میں 19 صدی میں انگریزوں کی بھی لکھی گئی کتابوں میں کراچی میں عبداللہ شاہ غازی کے مزار کا ذکر ملتا ہے مگر باقی کوئی زیادہ تفصیلات نہیں۔

ندیم فاروق پراچہ نے کہا کہ عبداللہ شاہ غازی کے بارے میں جتنی باتیں مشہور ہوئی ہیں ان کا تعلق گذشتہ 40 سے 50 برس سے ہی ہے جب کہ اس طرح کی باتیں پہلے پہل مذاق کے طور پر کی جاتی تھیں مگر اب لوگ ان پر یقین بھی رکھتے ہیں۔

کراچی میں سمندری طوفان کب آتے آتے مڑا؟

مئی 1985 میں ایک طوفان کراچی کی جانب بڑھا تھا جو شہر کے جنوب میں 100 کلومیٹر کے فاصلے پر ہی کمزور ہوکر ختم ہوگیا تھا۔

نومبر 1993 میں بھی کیٹیگری 1 کا طوفان مڑ کر سندھ و گجرات سرحد کے قریبی ساحل سے ٹکرایا، جبکہ جون 1998 میں کیٹیگری 3 کا سمندری طوفان کراچی کی جانب آتے آتے جنوبی مشرقی سندھ کی طرف بڑھ گیا تھا۔

اس کے علاوہ مئی 1999 میں کیٹیگری 3 کا سمندری طوفان کراچی کے قریب ٹکرایا جس نے سندھ کے ساحلی علاقوں کو کافی نقصان پہنچایا تھا، یہ پاکستان کا ریکارڈ سخت ترین طوفان تھا۔ مئی 2001 میں کیٹگری 3 کا سائیکلون گجرات کے ساحل سے ٹکرایا جب کہ اکتوبر 2004 میں اونیل نامی سائیکلون کراچی اور سندھ کے ساحل کی جانب بڑھا مگر بعد میں سمندر کی طرف واپس مڑ گیا۔

جون 2007 کے اوائل میں گونو نامی سُپر سائیکلون سے کراچی محفوظ رہا اور جون 2007 ہی میں، یمین نامی ایک سمندری و ہوائی طوفان کراچی کے قریب سے گزرا تھا جب کہ نومبر 2009 میں پھائن نامی سائیکلون پہلے ہی دم توڑ گیا تھا۔

جون اور نومبر 2010 میں پھیٹ اور جل نامی طوفان کراچی کے قریب آکر کمزور پڑ گئے تھے، جب کہ 2014 میں نیلوفر نامی سائیکلون کا رخ بھی کراچی کی جانب تھا مگر عین موقع پر اس نے اپنا رخ موڑ لیا اور کراچی ایک مرتبہ پھر سمندری طوفان سے محفوظ رہا۔

karachi

Cyclone

Abdullah Shah Ghazi

Biporjoy

BIPARJOY