Aaj News

جمعہ, نومبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Awwal 1446  

پنجاب انتخابات اور ریویو اینڈ ججمنٹ ایکٹ کیس: ’چڑیاں شاید کوئی پیغام لائی ہیں‘

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے ریویو اینڈ ججمنٹ ایکٹ پر دلائل دیے.
شائع 15 جون 2023 01:25pm
فائل فوٹو
فائل فوٹو

چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے آج بھی پنجاب انتخابات اور سپریم کورٹ ریویو اینڈ ججمنٹ ایکٹ کیس کی سماعت کی ، جس میں اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے ریویو اینڈ ججمنٹ ایکٹ پر دلائل دیے۔

سماعت کے آغاز پر چڑیوں کی چہچہانے کی آوازیں آئیں تو چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو چڑیوں کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ چڑیاں شاید آپ کیلئے کوئی پیغام لائی ہیں۔

جس پر اٹارنی جنرل نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ امید ہے پیغام اچھا ہوگا۔چیف جسٹس نے کہا وہ زمانہ بھی تھا جب کبوتروں کے ذریعہ پیغام جاتے تھے۔

اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ 184(3) سے متعلق ایک فیصلہ منظور الہیٰ کیس میں آیا، چوہدری ظہور الہیٰ کو کیس میں گرفتار کرکے قبائلی علاقے لے جایا گیا۔

اٹارنی جنرل منصور اعوان نے کہا کہ ملتا جلتا معاملہ ہونے پر چیف جسٹس نے 184(3) کی درخواست پر اختیار کے استعمال سے گریز کیا۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ تمام ججز نے کہا تھا یہ معاملہ عوامی مفاد کا ہے، آپ فیصلہ کا پیرا گراف 47 بھی پڑھیں۔

جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالتی فیصلے میں میرا زیادہ انحصار پیراگراف 45 پر ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ میں فیصلہ پڑھ کربتاؤں گا کہ گزشتہ سالوں میں 184(3) کا دائرہ اختیار کیسے بڑھتا گیا۔

جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ 184 (3) کے ساتھ نظرثانی کا دائرہ اختیار کیوں اور کیسے بڑھنا چاہیے؟

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ درخواست گزار کا مؤقف بھی زرا سمجھیں، درخواستگزار کو اس پر اعتراض نہیں کہ آپ نے کیوں کیا، درخواستگزار کہتے ہیں موسٹ ویلکم لیکن آئینی ترمیم سےکریں، عدالت بھی مانتی ہے کہ دائرہ کار وسیع ہوں لیکن اس میں وجوہات بھی تو شامل کریں، ورنہ تو آپ عدالت کے معاملات کو ڈسٹرب ہی کریں گے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سمجھنے میں دشواری ہے 184 (3) میں فیصلوں کے خلاف نظرثانی کو دیگر فیصلوں سے فرق کیسے کیا گیا؟ میرے لیے تو سپریم کورٹ کے تمام فیصلوں کے خلاف نظرثانی کا پیمانہ ایک ہے، آپ جوقانون لے کر آئے ہیں اس میں الگ الگ پیمانہ لائے ہیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ نظرثانی کا دائرہ کار بڑھانا اور اپیل کے مترادف قرار دینا الگ الگ چیزیں ہیں۔

جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ جب نظرثانی کا معاملہ ایک ہی ہے تو اسکوپ الگ کیسے ہوسکتا ہے؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں نے یہ نکات نوٹ کرلیے ہیں ان پر بھی معاونت کروں گا۔

اٹارنی جنرل نے دلائل میں وطن پارٹی کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا میں فیصلوں کے حوالوں کے بعد سپریم کورٹ رولز پر بھی آؤں گا، وقت کےساتھ 184 (3) کا ہی دائرہ کار وسیع ہوا، اب نظرثانی ہونی چاہیے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ چیزوں کو کاٹ کر الگ کیسے کرسکتے ہیں؟ آخر میں کوئی بھی فیصلہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ہی کہلائے گا، نظرثانی میں عدالت کے سامنے معاملہ دو فریقین کے تنازع کا نہیں ہوتا، نظرثانی میں عدالت کے سامنے اپنا ہی سابقہ فیصلہ ہوتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ مختلف ادوار میں 184(3) کے دائرہ اختیار کو مختلف انداز میں سمجھا ہے، امریکی سپریم کورٹ نے بھی مختلف ادوار میں الگ طرح سے پرکھا، ہوسکتا ہے مستقبل میں 184(3) کے اختیار کو اور طرح سے سمجھے، ایسے میں آپ کے اس ایکٹ کا مستقبل کیا ہوگا؟

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے نظرثانی کو دوبارہ سماعت جیسا بنانا ہے تو آپ ضرورکریں، اس کے لیے آپ درست قانونی راستہ اختیار کریں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں یہ بھی بتا دوں گا کہ نظرثانی کا ارتقاء کیسے ہوا۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ گڈ یعنی اب ہم نظرثانی کے ارتقاء پر آپ کو سنیں گے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں پہلے 1859 کے ایکٹ پر بات کروں گا، اٹارنی جنرل نے 1877 کے ایکٹ کا بھی حوالہ دیا۔

جس پر چیف جسٹس نے پوچھا آپ کو دلائل میں کتنا وقت لگے گا؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ابھی وقت درکار ہوگا۔

جس پر سپریم کورٹ نے سماعت کل تک ملتوی کردی۔

Supreme Court of Pakistan

Supreme Court Review of Judgements and Orders Act 2023