Aaj News

جمعہ, نومبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Awwal 1446  

سپریم کورٹ ریویو اینڈ ججمنٹ کیس: ’ایکٹ لاگو ہوا تو 183(3) کے تمام مقدمات دوبارہ کھل جائیں گے‘

آئین میں نظرثانی کے دائرہ اختیار کو بالکل واضح لکھا گیا ہے، چیف جسٹس
شائع 14 جون 2023 01:27pm
تصویر بزریعہ روئٹرز
تصویر بزریعہ روئٹرز

سپریم کورٹ ریویو اینڈ ججمنٹ ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر آج ہونے والی سماعت میں چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ وکیل علی ظفر کا 1962 کے عدالتی ایکٹ کا حوالہ بہت اچھا فیصلہ ہے، یہ ریویو سے متعلق تھا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ریویو اینڈ ججمنٹ ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی۔

بینچ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس منیب اختر اور جسٹس اعجازالاحسن شامل ہیں۔

پی ٹی آئی وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ فیصلہ میں کہا گیا عدالت کو اپنا پرانا فیصلہ ری اوپن کرنے میں بہت ہچکچاہٹ اور احتیاط برتنی چاہیے، فیصلہ میں سپریم کورٹ کے فیصلوں کے حتمی ہونے کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی جانب سے اب تک کے تین پوائنٹ اٹھائے گئے ہیں، فیصلے میں وزڈم ہے، وہ قانونی عمل کو حتمی بنانے کی بات کررہے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ بھارت میں حق سماعت نہ ملے تو نظرثانی درخواست دائر ہوتی ہے، ہمارے ہاں فیصلہ غیر قانونی ہو تو نظرثانی ہوجاتی ہے، ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ کیا پارلیمنٹ نظرثانی قانون کو وسیع کرسکتی ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آئین میں نظرثانی کے دائرہ اختیار کو بالکل واضح لکھا گیا ہے۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ میرا کیس ہی یہی ہے کہ ریویو آف ججمنٹ اینڈ آرڈر ایکٹ خلافِ آئین ہے۔

جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ فوجداری ریویو میں صرف نقص دور کیا جاتا ہےجبکہ سول میں اسکوپ بڑا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ نظرثانی کے آئینی تقاضے ہیں مگر اسے اپیل میں نہیں بدلا جاسکتا، اگر نظرثانی میں اپیل کا حق دینا ہے تو آئینی ترمیم درکار ہوگی، نظرثانی کیس میں صرف نقائص کا جائزہ لیا جاتا ہے، نئے شواہد بھی پیش نہیں ہوسکتے۔

وکیل پی ٹی آئی علی ظفر نے کہا کہ آئین کہتا ہے شیڈول فور کے مطابق ہی قانون بن سکتا ہے، پارلیمنٹ ہائیکورٹ سے متعلق قانون بناسکتی ہے مگر سپریم کورٹ سے متعلق نہیں، آئین میں سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ کو الگ الگ رکھا گیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ نظرثانی میں اپیل کا حق دینا آرٹیکل 184/3 کےاختیارات میں کمی لانا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے مطابق وہ دراصل 184(3) کے اثر کو کم کررہے ہیں، آپ کہہ رہے ہیں 184(3) کا دائرہ کم کریں موسٹ ویلکم لیکن آئینی ترمیم سے کریں؟

جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ جی ہم یہی کہہ رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ نظرثانی میں آپ کو دکھانا ہوگا کون سا نقص فیصلہ میں موجود ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اس قانون کو صرف 184(3) تک محدود کیا گیا ہے، ایک محدود مقصد کے لیے ریویو اپیل بنا دیا گیا، کل پارلیمنٹ ایک اور قانون بناتی ہے کے ایک نہیں دو اپیلیں ہوا کریں گی تو کیا ہوسکتا ہے؟

وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ محض قانون سازی سے نہیں آئینی ترمیم سے کرسکتی ہے۔

جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اب تو ایکٹ کے آنے سے پہلے کے فیصلوں پر بھی نظرثانی قانون لاگو ہوگا، ایکٹ کے بعد از خود نوٹس والے مقدمات پر بھی ایکٹ لاگو ہوگا، 184/3 کے تمام مقدمات پر ایکٹ لاگو ہوا تو سب کیس دوبارہ کھل جائیں گے،

چیف جسٹس نے کہا کہ نظرثانی قانون سے متعلق کئی اہم سوالات سامنے آئے جن کو دیکھیں گے۔

تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر نے اپنے دلائل مکمل کرلئے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل کو کل سنیں گے، اور کیس کی سماعت کل ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردی

Supreme Court of Pakistan

Supreme Court Review of Judgements and Orders Act 2023