دو ججز کی سپریم کورٹ میں تقرری کیلئے جوڈیشل کمیشن کا اجلاس آج ہوگا
ملکی اعلیٰ ترین عدالت میں نئی تقرریوں پر تبادلہ خیال کے لیے جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کا اجلاس آج (بدھ) کو ہوگا۔
مذکورہ اجلاس سہ پہر تین بجے سپریم کورٹ آف پاکستان میں ہوگا۔
اجلاس میں اِس وقت پشاور ہائی کورٹ کی چیف جسٹس کے طور پر خدمات انجام دے رہیں جسٹس مسرت ہلالی کی عدالت عظمیٰ میں تقرری زیر غور آنے کا امکان ہے۔
سپریم کورٹ کے 17 میں سے صرف 15 ججز ہی خدمات انجام دے رہے ہیں، دو نشستیں خالی ہونے کے باوجود گزشتہ 10 ماہ میں کمیشن کوئی کا اجلاس نہیں بلایا گیا۔
ان دونوں نشستوں میں سے پہلی نشست اس وقت خالی ہوئی جب جسٹس مظہر عالم گزشتہ سال 13 جولائی کو ریٹائر ہوئے۔ دوسری نشست ٹھیک ایک ماہ بعد اس وقت خالی ہوئی جب جسٹس سجاد علی شاہ 13 اگست کو ریٹائر ہوئے۔
یکم مئی کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کمیشن کے تمام ارکان کو ایک خط لکھا، جس میں جسٹس ہلالی اور جسٹس احمد علی شیخ کو سپریم کورٹ میں تعینات کرنے کی سفارش کی گئی۔
کمیشن کا حصہ کون ہے؟
پاکستان کا جوڈیشل کمیشن نو ارکان پر مشتمل ہے۔ اس میں چیف جسٹس آف پاکستان کے ساتھ ساتھ عدالت کے چار سینئر ترین ججز بھی شامل ہیں۔
کمیشن میں سپریم کورٹ کے ایک سابق جج اور ایک سینئر وکیل بھی شامل ہیں جو پاکستان بار کونسل کا حصہ ہیں، دونوں کی تقرری مشاورت کے ذریعے کی گئی ہے۔
حکومت کی نمائندگی کے لیے کمیشن میں اٹارنی جنرل اور وزیر قانون کے لیے بھی نشستیں ہیں۔
جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے موجودہ ممبران
- چیف جسٹس عمر عطا بندیال
- جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
- جسٹس سردار طارق مسعود
- جسٹس اعجاز الاحسن
- جسٹس منصور علی شاہ
- جسٹس (ریٹائرڈ) سرمد جلال عثمانی
- ایڈوکیٹ اختر حسین
- اٹارنی جنرل منصور اعوان
- وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ
نئی تقرریوں کا کیا اثر ہو سکتا ہے؟
اگرچہ ججز کی تقرری ایک مسلسل عمل ہے، لیکن اس بار یہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب عدالت تنازعات کے گھیرے میں ہے۔
ایسے وقت میں جب عدالت کے دو کیمپوں میں تقسیم کی بازگشت ہے، ججز کا ایک دوسرے سے ہاتھ نہ ملانا خبر بن گیا ہے اور ججز کے ایک ساتھ درخت لگانے کو پیغام کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔
ایسے ماحول میں، نئے آنے والے ججز کا جھکاؤ ایک خاص جانب ہوسکتا ہے، جس کے نتیجے ترازو کا پلڑا ایک طرف مکمل طور پر جھک جائے گا۔
بہرصورت جسٹس مسرت ہلالی کی تقرری کا فیصلہ جلد کرنا ہوگا کیونکہ وہ اگست میں ریٹائر ہونے والی ہیں۔
Comments are closed on this story.