سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کی 8 جون کی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف دائر آئینی درخواستوں کی 8 جون کی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا گیا۔
4 صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامے میں عدالت عظمیٰ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف جاری حکم امتناع میں ایک ماہ کی توسیع دے دی۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجربل قانون بن گیا، نوٹیفکیشن جاری
تحریری حکم نامے میں کہا گیا کہ اٹارنی جنرل آف پاکستان نے عدالتی اصلاحات قانون اور نظرثانی کے نئے قانون میں درستگی کے لیے مزید مہلت کی استدعا کی، اٹارنی جنرل کے مطابق دونوں قوانین میں غلطیوں کی درستگی کے لیے ڈرافٹ شروع ہوچکا، اٹارنی جنرل کے مطابق پارلیمنٹ کے بجٹ سیشن اور عید تعطیلات کی وجہ سے قانون سازی کے لیے مزید وقت درکار ہے۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر عملدرآمد روک دیا
سپریم کورٹ کے 8 رکنی بینچ میں شامل جسٹس شاہد وحید کی علالت کے باعث کھلی عدالت میں سماعت نہ ہوسکی۔
عدالت عظمی میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف دائر آئینی درخواستوں پر آئندہ سماعت جولائی میں ہوگی۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ پرو سیجر اینڈ پریکٹس قانون کیس، گزشتہ سماعت کا حکم نامہ جاری
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 کیا ہے؟
بینچز کی تشکیل کے حوالے سے منظور کیے گئے اس قانون میں کہا گیا کہ عدالت عظمیٰ کے سامنے کسی وجہ، معاملہ یا اپیل کو چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججز پر مشتمل ایک کمیٹی کے ذریعے تشکیل دیا گیا بینچ سنے گا اور اسے نمٹائے گا، کمیٹی کے فیصلے اکثریت سے کیے جائیں گے۔
عدالت عظمیٰ کے اصل دائرہ اختیار کو استعمال کرنے کے حوالے سے قانون میں کہا گیا کہ آرٹیکل 184 (3) کے استعمال کا کوئی بھی معاملہ پہلے مذکورہ کمیٹی کے سامنے رکھا جائے گا۔
مزید پڑھیں: حکومت کو قانون سازی پر سپریم کورٹ سے مشاورت کرنی چاہیے، چیف جسٹس
اس حوالے سے کہا گیا کہ اگر کمیٹی یہ مانتی ہے کہ آئین کے حصہ دوم کے باب اول میں درج کسی بھی بنیادی حقوق کے نفاذ کے حوالے سے عوامی اہمیت کا سوال پٹیشن کا حصہ ہے تو وہ ایک بینچ تشکیل دے گی جس میں کم از کم تین ججز شامل ہوں گے، سپریم کورٹ آف پاکستان جس میں اس معاملے کے فیصلے کے لیے کمیٹی کے ارکان بھی شامل ہو سکتے ہیں۔
آرٹیکل 184 (3) کے دائرہ اختیار کا استعمال کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ کے بینچ کے کسی بھی فیصلے پر اپیل کے حق کے بارے میں بل میں کہا گیا کہ بینچ کے حکم کے 30 دن کے اندر اپیل سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کے پاس جائے گی، اپیل کو 14 دن سے کم مدت کے اندر سماعت کے لیے مقرر کیا جائے گا۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف درخواستیں سماعت کیلئے مقرر
بل میں قانون کے دیگر پہلوؤں میں بھی تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں، اس میں کہا گیا کہ ایک پارٹی کو آئین کے آرٹیکل 188 کے تحت نظرثانی کی درخواست داخل کرنے کے لیے اپنی پسند کا وکیل مقرر کرنے کا حق ہوگا۔
اس کے علاوہ یہ بھی کہا گیا کہ کسی وجہ، اپیل یا معاملے میں جلد سماعت یا عبوری ریلیف کے لیے دائر کی گئی درخواست 14 دنوں کے اندر سماعت کے لیے مقرر کی جائے گی۔
مزید پڑھیں: پی ٹی آئی کی سپریم کورٹ پروسیجر اینڈ پریکٹس بل کالعدم قرار دینے کی استدعا
قانون میں کہا گیا کہ اس کی دفعات کسی بھی دوسرے قانون، قواعد و ضوابط میں موجود کسی بھی چیز کے باوجود نافذ العمل ہوں گی یا کسی بھی عدالت بشمول سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے فیصلے پر اثر انداز ہوں گی۔
Comments are closed on this story.