انتخابات سے متعلق فیصلہ 4 اور 3 کا کہنا بالکل غلط ہے، سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ
سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا۔
ازخود نوٹس کیس کا 43 صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس منیب اختر نے تحریر کیا ہے جبکہ فیصلے میں 14 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹس بھی شامل ہے۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کی بحالی کیلئے دائر درخواست واپس کردی
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کا انتخابات سے متعلق فیصلہ 4 اور 3 کا کہنا بالکل غلط ہے، 7 رکنی بینچ بنا ہی نہیں تو 4 اور 3 کا تناسب کیسے ہوسکتا ہے، ایک بات قابل غور ہے سپریم کورٹ کے یکم مارچ کے فیصلے پر پانچوں ججز کے دستخط موجود ہیں، چیف جسٹس نے الیکشن معاملے پر سب سے پہلے 9 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ 9 رکنی لارجر بینچ نے 23 فروری کو پہلی سماعت کی، بینچ میں شامل ججز نے سماعت کے بعد پھر ٹی روم میں ملاقات کی، اس دوران 9 ججز نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا، جسے 27 فروری کو جاری کیا گیا جبکہ تفصیلی فیصلے میں بینچ کی از سر نو تشکیل کے حکم نامے کا حوالہ دیا گیا۔
مزید پڑھیں: فنڈزنہیں ملے، 14 مئی کو انتخابات نہیں ہوسکتے: الیکشن کمیشن نے رپورٹ جمع کروادی
تفصیلی فیصلے میں مزید کہا گیا کہ چیف جسٹس نے انتخابات کے معاملے پر پہلے 9 رکنی اور پھر 5 رکنی صرف 2 بینچز تشکیل دیے، اس کیس میں کسی دوسرے بینچ کا کوئی وجود نہیں ہے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جسٹس منصور علی شاہ نے دستخط کے ساتھ لکھا ”میں نے الگ سے آرڈر لکھا ہے، جسٹس جمال مندوخیل لکھتے ہیں “ میں نے مرکزی فیصلے کے ساتھ الگ نوٹ تحریر کیا ہے“، اختلاف کرنے والے دونوں ججز نے مشترکہ آرڈر جاری کیا جس پر صرف 2 ججز کے دستخط موجود تھے۔
مزید پڑھیں: الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم، پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات کرانے کا حکم
تفصیلی فیصلے میں مزید کہا گیا کہ بروقت انتخابات کا انعقاد پارلیمانی جمہوریت کے لیے انتہائی ضروری ہے، قانون میں خلاء ہونے کو انتخابات کی تاریخ نہ دینے کی وجہ نہیں بنایا جاسکتا، انتخابات کی تاریخ دینے کے حوالے سے آئین واضح ہے، ہر اسمبلی کو الگ یونٹ اور الگ اختیار کی حیثیت حاصل ہے، قبل از وقت اسمبلی تحلیل ہونے کی صورت میں نئے انتخابات کیلئے آئین نے مکمل طریقہ کار طے کررکھا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ بینچز کو تشکیل دینا چیف جسٹس پاکستان کا اختیار ہے، سیکشن 57 کا اختیار استعمال کرتے ہوئے صدر کو وزیراعظم کی ایڈوائس کی ضرورت نہیں، دوران سماعت بتایا گیا کہ انتخابات 2018 کے وقت وزیراعظم نے صدر کو ایڈوائس بھیجی تھی، انتخابات 2018 کیلئے صدر کو بھیجی گئی سمری کی حیثیت صرف معلوماتی نوعیت کی ہے۔
Comments are closed on this story.