بیرون ملک اثاثے: سپریم کورٹ نے غیر منقولہ جاٸیدادوں پر ٹیکس آدھا کردیا
سپریم کورٹ میں بیرون ملک اثاثوں پر ٹیکس نفاذ کے خلاف درخواستوں پر سماعت ہوئی، جس میں سپریم کورٹ نے غیر منقولہ پراپرٹی پر عاٸد سو فیصد ٹیکس دینے پر حکم امتناع جاری کردیا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی درخواست مسترد کرتے ہوئے غیر منقولہ جائیداد پر کیپیٹل ویلیو ٹیکس 100 فیصد سے کم کرکے 50 فیصد کرنے کا حکم دے دیا۔
پیر کو چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے پاکستان میں مقیم شخص کے غیر ملکی اثاثوں پر ٹیکس سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ یہ مقدمہ چھ اسی طرح کی دیگر درخواستوں کو یکجا کرکے بنایا گیا تھا۔
یہ ٹیکس اصل میں فنانس بل 2022 میں لگایا گیا تھا اور اس کے خلاف درخواستیں لاہور ہائی کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ نے مسترد کر دی تھیں۔
سپریم کورٹ نے فریقین کو غیر منقولہ جاٸیدادوں پر 50 فیصد ٹیکس ادا کرنے کا حکم دے دیا۔ فیصلے کا اطلاق منقولہ جاٸیداد پر نہیں ہوگا۔
دوران سماعت چیف جسٹس عمرعطا بندیال کا کہنا تھا کہ ملک کواس وقت مالی مشکلات کا سامنا ہے، ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ان حالات میں تعاون کریں، حکومت کی مجبوریوں کو ہم سمجھ سکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس نٸے ٹیکس سسٹم کی خامیوں کو دیکھنا ہوگا، مزید لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں شامل کرنے کیلٸے کریٹیو ٹیکسیشن کرنا ہوگی، عدالت نے جو کچھ بھی کرنا ہے وہ آٸین و قانون کے مطابق کرنا ہے۔
ایف بی آر کی لیگل ٹیم کے ممبر کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ اربوں کا ہے، عدالت نے حکم امتناع جاری کیا تو باقیوں کے ساتھ زیادتی ہوگی، ٹیکس پالیسی پر ایسے ریلیف ملنا شروع ہوگیا تو مشکلات بڑھیں گی۔
ایف بی آر کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر ٹیکس کے معاملات کو عدالت نے ٹال دیا تو اس سے مستقبل میں مسائل پیدا ہوں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جو سو فیصد ٹیکس ادا کرنا چاہے تو عدالت کو کوٸی اعتراض نہیں۔
وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ لاہور ہاٸیکورٹ نے فریقین کو سنے بغیر فیصلہ دیا، لاہور ہاٸیکورٹ فیصلے کے خلاف نظرثانی اپیل داٸر کی ہے۔
سپریم کورٹ نے سو فیصد ٹیکس ادا کرنے کی ایف بی آر کی استدعا مسترد کردی۔
عدالت نے درخواست گزار کا ٹیکس 100 فیصد سے کم کرکے 50 فیصد کرنے کا حکم دے دیا۔
تاہم عدالت نے مزید کہا کہ اس حکم کا اطلاق منقولہ جائیداد پر نہیں ہوگا۔
غیر منقولہ غیر ملکی اثاثوں پر ٹیکس
فنانس بل 2022 نے سیکشن 8 (2 بی) میں تجویز کیا تھا کہ ایسا رہائشی فرد جس کے غیر ملکی اثاثوں کی ٹیکس سال کے آخری دن اثاثوں کی مالیت مجموعی طور پر دس کروڑ سے زیادہ ہو، اس سے کیپٹل ویلیو ٹیکس جمع کیا جانا چاہیے۔
بل میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ یہ ٹیکس پاکستان سے باہر موجود کسی بھی منقولہ یا غیرمنقولہ اثاثوں پر ہوگا جس میں رئیل اسٹیٹ، نقدی، رہن رکھے گئے اثاثے اور بینک اکاؤنٹس شامل ہیں۔
تاہم اس ٹیکس کے خلاف سندھ اور لاہور ہائی کورٹ میں کیسز دائر کیے گئے تھے، لیکن دونوں جگہ مقدمات خارج کر دیے گئے۔
درخواستیں اس بنیاد پر دائر کی گئی تھیں کہ پاکستان میں رہائش پذیر غیر ملکیوں کے اثاثوں پر ٹیکس لگانا پارلیمنٹ کے اختیار میں نہیں ہے۔ دونوں عدالتوں نے اس خیال سے اتفاق نہیں کیا۔
سندھ ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ ’اعتراف ہے کہ غیر ملکی آمدنی پاکستان کے علاقائی دائرہ اختیار میں نہیں کمائی جاتی۔ لیکن آئینی دفعات کے لحاظ سے، جو پارلیمنٹ کو ایک رہائشی شخص کی آمدنی پر ٹیکس لگانے کا اختیار دیتی ہے۔ اس کی بیرون ملک آمدن پر بھی ٹیکس لگایا جاتا ہے اور اس طرح کے ٹیکس کو عدالت کے سامنے کبھی متنازع نہیں بنایا گیا‘۔
لاہور ہائی کورٹ نے بھی ایسا ہی بیان دیا تھا اور کہا تھا کہ مجموعی اثاثوں پر ٹیکس لگانے کا اختیار صرف پارلیمنٹ کو ہے۔
اس سے قبل کوئی بھی دہری شہریت رکھنے والا شخص جو پاکستان میں 183 دنوں سے زیادہ قیام نہیں کرتا تھا، وہ رہائشی تصور نہیں کیا جاتا تھا اور ایسے فرد پر ٹیکس نہیں لگایا جاتا تھا۔
تاہم، نیا قانون اس شرط کو غیر متعلقہ بناتا ہے اور بیرون ملک اثاثے رکھنے والے تمام پاکستانیوں پر ٹیکس عائد کرنے کی سہولت فراہم کرتا ہے۔
Comments are closed on this story.