Aaj News

پیر, دسمبر 23, 2024  
20 Jumada Al-Akhirah 1446  

میری بیوی کو برہنہ کرکے 120 لوگوں نے تشدد کیا، بھارتی فوجی کا الزام

پولیس نے بھارتی فوجی کے الزامات کو جھوٹا قرار دے دیا۔
شائع 12 جون 2023 10:54am
اسکرین شاٹ: ٹوئٹر/لیفٹیننٹ کرنل این تھاگراجن
اسکرین شاٹ: ٹوئٹر/لیفٹیننٹ کرنل این تھاگراجن

بھارتی فوج کے ایک اہلکار نے الزام عائد کیا ہے کہ تمل ناڈو کے ضلع تھروانامالائی میں لوگوں کے ایک گروپ نے اس کی بیوی کو ’برہنہ کیا اور بے دردی سے اسے تشدد کا نشانہ بنایا۔

ایک ریٹائرڈ فوجی افسر لیفٹیننٹ کرنل این تھاگراجن کی طرف سے پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں بھارتی فوج کے حوالدار پربھاکرن کو دکھایا گیا ہے۔

حوالدار پربھاکرن کا تعلق تمل ناڈو کے گاؤں پاداویدو سے ہے اور وہ اس وقت مقبوضہ کشمیر میں تعینات ہے۔

ویڈیو میں، فوجی اہلکار نے کہا، ’میری بیوی لیز پر لی گئی ایک جگہ پر دکان چلاتی ہے۔ اسے 120 آدمیوں نے مارا پیٹا اور دکان کا سامان باہر پھینک دیا۔ میں نے ایس پی کو درخواست بھیجی ہے اور انہوں نے کارروائی کی یقین دہانی کرائی ہے۔ ڈی جی پی صاحب، مدد کریں۔ انہوں نے میرے خاندان پر چاقو سے حملہ کیا اور دھمکیاں دیں۔ میری بیوی کو نیم برہنہ کرکے بے دردی سے مارا پیٹا گیا۔‘

تاہم، کندھاوسال پولیس نے ابتدائی تحقیقات کے بعد ایک بیان جاری کیا اور دعویٰ کیا کہ واقعہ ”مبالغہ آرائی“ پر مبنی ہے۔

پولیس نے بتایا کہ رینوگمبل مندر کی زمین پر بنی ایک دکان پربھاکرن کے سسر سیلوامورتی کو کمار نے پانچ سال کی مدت کے لیے 9.5 لاکھ روپے میں لیز پر دی تھی۔ کمار کی موت کے بعد، اس کا بیٹا رامو دکان واپس چاہتا تھا، اس لیے وہ رقم واپس کرنے پر راضی ہو گیا اور 10 فروری کو ایک معاہدے پر دستخط ہوئے۔

پولیس کے مطابق رامو نے بعد ازاں دعویٰ کیا کہ سیلوامورتی نے رقم لینے اور دکان چھوڑنے سے انکار کردیا۔ 10 جون کو رامو، سیلوامورتی کے بیٹوں جیوا اور ادھیا کو رقم دینے دکان پر گیا تھا، جنہوں نے مبینہ طور پر رامو پر حملہ کیا۔ اور جیوا نے رامو کے سر پر چاقو سے حملہ کیا تھا۔

پولیس کا دعویٰ ہے کہ جھگڑے کو دیکھنے کے بعد تماشائی رامو کی حمایت میں آگئے جس سے ایک بڑی لڑائی ہوئی، جہاں دکان میں موجود سامان کو باہر پھینک دیا گیا۔

پولیس نے دعویٰ کیا کہ پربھاکرن کی بیوی کیرتی اور اس کی ماں اس وقت دکان میں موجود تھیں، لیکن بھیڑ نے ان پر حملہ نہیں کیا۔

بعد میں شام کو پربھاکرن کی بیوی نے بھی خود کو اسپتال میں داخل کرایا۔

اگرچہ حوالدار کا کہنا ہے کہ اس کی بیوی کو شدید چوٹیں آئی ہیں، تاہم، پولیس حکام کے مطابق یہ سچ نہیں ہے۔

کندھوسال پولیس نے شکایات کی بنیاد پر دونوں فریقوں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے اور تفصیلی تحقیقات شروع کر دی ہیں، لیکن کہا ہے کہ حولدار پربھاکرن کے دعوے مبالغہ آرائی پر مبنی تھے۔

اس واقعے پر پولیس کی جانب سے جاری کیے گئے ایک پریس نوٹ میں کہا گیا ہے کہ جھڑپ کے دوران فوجی اہلکار کی اہلیہ پر حملہ نہیں ہوا تھا۔

تمل ناڈو بی جے پی کے سربراہ کے انامالائی نے فوجی اہلاکر سے بات کی اور کہا کہ بھگوا پارٹی ان کی بیوی کو انصاف دلائے گی۔

ایک ٹویٹ میں، انہوں نے کہا کہ پارٹی، جوان کے خاندان کو انصاف دلانے میں ان کے ساتھ کھڑی رہے گی۔

دوسری جانب بھارتی فوج کی ناردرن کمانڈ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’وردی میں ملبوس ہندوستانی فوج کے ایک سپاہی نے اپنے خاندان کی حفاظت کے خوف میں بیان دیا ہے۔ فوج پہلے ہی پولیس حکام سے رابطہ کر چکی ہے جنہوں نے تحقیقات کے بعد ہر طرح کی مدد کی یقین دہانی کرائی ہے۔

ایک ملزم پہلے ہی گرفتار ہو چکا ہے۔ دیگر کی گرفتاری کے لیے کارروائیاں جاری ہیں۔’

بیان میں مزید کہا گیا کہ ’بھارتی فوج ان خاندانوں کی فلاح و بہبود کو اعلی ترجیح دیتی ہے جو فیلڈ ایریاز میں تعینات فوجیوں سے دور رہتے ہیں۔ فوری صورت میں، مقامی فوجی حکام اہل خانہ تک پہنچ گئے ہیں اور فوجی کے اہل خانہ کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے سول پولیس سمیت سول انتظامیہ سے بھی مسلسل رابطے میں ہیں۔ پولیس نے اہل خانہ کو تحفظ کی یقین دہانی کرائی ہے۔‘

Indian Army

sexual assault

Indian soldier

Indian Army Officer