اسٹیٹ بینک نے نئی مانیٹری پالیسی کا اعلان کردیا
اسٹیٹ بینک آف پاکستان آج اپنی نئی مانیٹری پالیسی کا اعلان کردیا ہے، شرح سود21 فیصد برقرار رہے گی۔
دولت پاکستان کی زری پالیسی کمیٹی کا اجلاس آج کراچی میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں ہوا، جس میں مانیٹری پالیسی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق ملکی غیر یقینی کیفیت اور بیرونی کھاتے پر مسلسل دباؤ ہے، مئی میں مہنگائی 38 فیصد پر پہنچ چکی ہے توقع ہے جون اور اس کے بعد مہنگائی میں کمی آنا شروع ہوگی۔
اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ مالی سال 2023 کے دوران حقیقی جی ڈی پی کی شرح افزائش خاصی سُست ہوگئی، جاری کھاتے کے توازن میں مارچ اور اپریل کے دوران مسلسل فاضل رہا، جس سے زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ کم ہوگیا، اجناس کی عالمی قیمتیں اور مالی حالات کچھ بہتر ہوئے ہیں۔
اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں اجناس کی قیمتوں، افراط زر اور کرنٹ اکاؤنٹ کی موجودہ شرح کے پیش نظر شرح سود برقرار رہنے کا امکان ہے۔
گزشتہ اعلان میں مانیٹری پالیسی کمیٹی نے شرح سود میں 100 بیسس پوائنٹس کا اضافہ کیا تھا۔
اضافے کے بعد پالیسی ریٹ 21 فیصد پر ہے جو ملکی تاریخ کی نئی بلند ترین سطح ہے۔ اس سے قبل 2 مارچ کو 300 بیسس پوائنٹس کا اضافہ کیا گیا تھا۔
گزشتہ مالی سال کے اختتام پر پالیسی ریٹ 14.75 فیصد رہا تھا۔ رواں مالی سال کے دوران اب تک شرح سود میں 6.25 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔
گذشتہ چند مہینوں میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قیمت گر رہی ہے اور اس وقت ایک ڈالر کی قیمت 286 روپے سے زائد ہے جو کہ اس کی تاریخی بلند ترین سطح ہے۔ اس سے ملک میں درآمد برآمد کا توازن بھی متاثر ہوا ہے کیونکہ پاکستان میں اندر لائی جانی والی اشیاء مہنگی ہو رہی ہیں۔
دوسری جانب حکومت کے پاس اتنے پیسے نہیں جتنے یہ خرچ رہی ہے، مثلاً بڑھتے ہوئے قرضوں کو سود سمیت چکانے میں۔
شرح سود کیا ہے
پاکستان کی حکومت ملک کے اندر سے بھی ادھار لیتی ہے، ایسے ذرائع سے جن کو ہم پرائیز بانڈ، نیشنل سیونگز سرٹیفکیٹ اور ٹریژری بلز کے ناموں سے جانتے ہیں۔
جہاں اکثر لوگوں کے لیے یہ پیسے محفوظ رکھ کر اس پر منافع کمانے کا ایک طریقہ ہوتا ہے، حکومت کے لیے یہ ایک ایسا ادھار ہوتا ہے جو اس کو سود سمیت واپس کرنا ہے۔
اور اسی سود کی واپسی کیلئے جو شرح مقرر کی تی ہے وہ شرح سود کہلاتی ہے۔
اس شرح سود کو بڑھانے کی بنیادی وجہ ہے کہ مختلف بینک، کارپوریٹس اور لوگ حکومت کو یہ پیسہ دینے میں اپنا زیادہ منافع دیکھیں اور مزید ادھار دیں۔ ایسا کرنے سے حکومت کے پاس وقتی طور پر پیسے جمع ہو جائیں گے، لیکن اس پالیسی کے اثرات یہاں ختم نہیں ہوتے۔
شرح سود کے عوامی اثرات
اس پالیسی ریٹ سے پاکستان کے تمام بینک اپنا شرح سود طے کرتے ہیں جس کو ”کراچی انٹر بینک آفر ریٹ“ یا عام طور پر ”کائبور“ (KIBOR) کے نام سے جانا جاتا ہے۔
بینک اسی ریٹ کے اوپر اپنا مارجن جمع کر کے اپنے گاہکوں کے ساتھ لین دین کرتا ہے، یعنی بڑھتے ہوئے پالیسی ریٹ کا مطلب ہے بڑھتا ہوا کائبور۔
جب لوگوں کو زیادہ شرح سود ملے گا تو وہ بینک میں پیسے جمع کرنا پسند کریں گے بجائے خرچنے کے، جس کی وجہ سے ان کا مہنگی درآمد شدہ اشیاء پر بھی خرچہ کم ہو گا۔
اس طریقہ کار سے درآمد برآمد کا توازن بھی سیدھا کرنے کی امید ہے اور غیر ملکی کرنسی کے ذخائر بڑھا کر گرتے ہوئے روپے کو تھوڑا سہارہ بھی دینے کی۔
تاہم شرحِ سود بڑھنے سے عام لوگوں اپنی روزمرہ زندگی میں خرچہ بھی کم کرنے لگتے ہیں جس کی وجہ سے قومی مجموعی پیداوار میں بھی کمی ہوتی ہے۔
Comments are closed on this story.