1150 ارب روپے کا وفاقی ترقیاتی پروگرام
اسلام آباد: وفاقی کابینہ نے 1150 ارب روپے کے وفاقی ترقیاتی پروگرام کی منظوری دے دی، جب کہ آئندہ مالی سال کیلئے ترقی کی شرح 3.5 فیصد کا ہدف مقرر کی گئی ہے۔
وزیراعظم کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا خصوصی اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس کی کمیٹی روم نمبر 2 میں جاری ہے جہاں کابینہ اراکین کے لئے بجٹ دستاویزات اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی جانب سے تیار کردہ ٹیکس اہداف کی دستاویزات پہنچائی گئیں۔
وفاقی کابینہ نے 1150 ارب روپے کے وفاقی ترقیاتی پروگرام کی منظوری دے دی ہے، آئندہ مالی سال کیلئے ترقی کی شرح 3.5 فیصد کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بجٹ میں پیٹرولیم پروڈکٹس لیوی آرڈنیننس میں بھی ترمیم کی گئی ہے، جب کہ فارن ڈومیسٹک ورکرز پر 2 لاکھ روپے ایڈوانس ٹیکس عائد کرنے کی تجویز ہے۔
آئندہ مالی سال کے بجٹ میں انفراسٹرکچر کے لئے 491.3 ارب روپے، توانائی کے شعبے کے لئے 86.4 ارب روپے کی منظوری دی گئی ہے، کابینہ نے آبی ذخائر اور شعبہ آب کے لئے 99.8 ارب روپے مختص کرنے، ٹرانسپورٹ اور کمیونیکیشن کے لئے 263.6 ارب روپے جب کہ فزیکل پلاننگ اور تعمیرات کے لئے 41.5 ارب روپے مختص کرنے کی منظوری دی ہے۔
فزیکل پلاننگ اور تعمیرات کے لئے 41.5 ارب روپے، سماجی شعبے کی ترقی کے لئے 241.2 ارب روپے، صحت کے شعبے کے لئے 22.8 ارب روپے کی منظوری دی گئی ہے۔
اس کے علاوہ تعلیم اور اعلیٰ تعلیم کے لئےبجٹ میں81.9 ارب روپے رکھے گئے جب کہ پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول کے پروگراموں کے لئے 90 ارب روپے مختص کیئے گئے ہیں۔
دفاع کی مد میں 1804 ارب روپے مختص کیئے گئے، دفاعی بجٹ تینوں مسلح افواج کےعلاوہ وزارت دفاع، دفاعی پیداوار اور ذیلی اداروں کے لئے مختص کیئے گئے ہیں۔
مالی سال 24-2023 میں دفاعی بجٹ 1530 ارب روپے مختص کیا گیا تھا، روپے کی قدر کی مناسبت سے دفاعی بجٹ بہت کم رکھا گیا ہے۔
رواں مالی سال میں مسلح افواج نے قومی بچت مہم میں حصہ لیتے ہوئے اپنے کئی اخراجات کم کردیئے تھے۔
واضح رہے کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار آئندہ مالی سال کا وفاقی بجٹ آج قومی اسمبلی میں پیش کریں گے، بجٹ میں پینشن اورسرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کا امکان ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ شام 6 بجے سینیٹ کا رُخ کریں گے جہاں وہ بجٹ دستاویزات پیش کریں گے۔
سینیٹ اجلاس میں بجٹ، سفارشات کے لیے قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو بھجوایا جائے گا لیکن بجٹ کے حوالے سے حکومت سینیٹ سفارشات پر عمل درآمد کی پابند نہیں ہوتی۔
Comments are closed on this story.