کراچی:ایڈز میں مبتلا خواجہ سراؤں کا علاج آج ہی شروع کرنے کا حکم
سندھ ہائی کورٹ میں ایڈز میں مبتلا خواجہ سرا کے سول اسپتال میں علاج نہ ہونے کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران ڈاکٹر روتھ کے ایم فاؤسول اسپتال انتظامیہ کو آج ہی ایڈز کے مرفیضوں کا علاج شروع کرنے کا حکم دے دیاگیا۔
عدالت نے خواجہ سرا مریضوں کا علاج یقینی بنانے کا حکم دیتے ہوئے صوبائی سیکرٹری صحت سے عمل درآمد رپورٹ بھی طلب کرلی۔
اسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ (ایم ایس) ڈاکٹر گریس کمار اپنے اسسٹنٹ ڈاکٹر شہزاد کے ساتھ عدالت میں پیش ہوئے۔ عدالت نے ایم ایس کو آج عدالت میں طلب کرتے ہوئے تحریری جواب طلب کیا تھا۔
جج نے ایم ایس کو ایچ آئی وی پازیٹیو درخواست گزاروں کو فوری طور پر علاج کی سہولت فراہم کرنے کا حکم دیا۔
ایم ایس نے حکم پر عملدرآمد کی رضامندی ظاہر کی اور اپنے دفاع میں کہا کہ درخواست گزاروں کو درکار طبی امداد، جیسے کہ ہپ ریپلیسمنٹ سرجری اور ڈائلائز سروس سول ہسپتال میں دستیاب نہیں ہے۔
جج نے استفسار کیا کہ کیا ایچ آئی وی کے مریضوں کے علاج کے لیے کوئی پروٹوکول یا طریقہ کار موجود ہے۔
انہوں نے جواب دیا کہ ایچ آئی وی پازیٹیو مریضوں کے علاج کے لیے الگ عملہ دستیاب ہے۔
پاکستان میں یہ پہلی بار ہو رہا ہے کہ سندھ ایچ آئی وی اور ایڈز کنٹرول ٹریٹمنٹ اینڈ پروٹیکشن ایکٹ 2013 کا استعمال کیا جارہا ہے، اس کیس کی پہلی سماعت بدھ، 7 جون کو سندھ ہائی کورٹ میں ہوئی، جہاں سول اسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کو بھی طلب کیا گیا تھٓا۔
کیس کا پس منظر
گزشتہ ماہ مئی میں 27 سالہ خواجہ سراچندا ایک سڑک حادثے میں زخمی ہونے کے بعد اپنے خون بہتے ہاؤں کا علاج کرانے کیلئے سول اسپتال پہنچی، جہاں اس کا علاج کیا گیا۔
تاہم جب وہ دوبارہ پٹی کروانے کے لیے اسپتال گئی تو عملے نے دستانے نہیں پہنے ہوئے تھے، اس لیے اس کے دوست نے عملے کو بتایا کہ زخمی خاتون کو ایچ آئی وی ہے اور انہیں اپنی حفاظت کرنی چاہیے۔
جس کے بعدعملے نے چندا کو ہاتھ لگانے سے ہی انکار کر دیا۔
صرف یہی نہیں بلکہ انہوں نے دوسرے اسپتالوں بھی کو چندا کا ایچ آئی وی اسٹیٹس واٹس ایپ پربھیج دیا۔
ایسے میں چندا زخموں کی مرہم پٹی کیلئے دوبارہسول اسپتال گئی لیکن وہاں موجود ڈاکٹروں اورعملے نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔
اس کے بعد چندا کا علاج گھر پر ہی کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن اس کے زخموں میں انفیکشن شروع ہوگیا اور زخم میں کیڑے پڑ گئے۔ جس کے نتیجے میں وہ آخر کار موت کے منہ میں چلی گئی۔
چندا ایچ آئی وی کے ساتھ رہنے والی ایک ٹرانس جینڈر خاتون تھی، جس کی موت زخم سے خون بہنے کی وجہ سے ہوئی۔
یہ پہلا موقع نہیں جب ایچ آئی وی/ ایڈز سے متاثرہ کسی شخص کو طبی امداد سے محروم کیا گیا ہو۔
اس بیماری سے جڑے بدنما داغ کے باعث صحت کی دیکھ بھال فراہم کرنے والے ایچ آئی وی پازیٹو لوگوں کے علاج سے انکار کرتے ہیں اور خاص طور پر اس وقت جب مریض کو چھونے کی ضرورت ہو۔
پاکستان میں یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ ٹرانسجینڈر کے حقوق کیلئے جدوجہد کرنے والوں نے امتیازی سلوک کے باعث سول اسپتال کے خلاف عدالت میں درخواست دائرکی ہے۔
درخواست گزاروں کی نمائندگی کرنے والی وکیل سارہ ملکانی کے مطابق درخواست گزاروں میں سے تین کو فوری طور پر طبی امداد کی ضرورت ہے، لیکن سول اسپتال کے عملے نے متاثرہ افراد کو طبی سہولت فراہم کرنے سے انکار کردیا۔
درخواست گزاروں میں سے ایک کو کولہے کی سرجری کی فوری ضرورت ہے، دوسرے کو باقاعدگی سے ڈائیلاسز اور خون کی منتقلی کی ضرورت ہوتی ہے، جبکہ تیسری درخواست گزار کو ہرنیا کے لیے طبی دیکھ بھال کی ضرورت ہے، لیکن اسے بھی علاج میسر نہیں جس کی وجہ سے اس کی سوجن اور تکلیف کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔
درخواست گزاروں میں سے ایک ایکٹوسٹ حنا بلوچ نے آج نیوز کو بتایا کہ ہمارے پاس ایسے چھ کیسز ہیں جن میں سے ایک ایسا مریض ہے جسے علاج فراہم نہیں کیا گیا تو وہ کسی بھی وقت مر جائے گا۔
ایچ آئی وی کے ان تین مریضوں کے ساتھ حنا بلوچ اور شہزادی رائے بھی درخواست گزاروں میں شامل ہیں۔ حنا بلوچ اور شہزادی رائے ٹرانسجینڈر کمیونٹی میں ایچ آئی وی/ایڈز کی روک تھام کے لیے کام کرتے ہیں۔
ایڈز کیسے پھیلتا ہے
ایچ آئی وی عام طور پر غیر محفوظ جنسی تعلقات یا منشیات کے انجیکشن جیسے سرنج اور سوئیوں کے غلط استعمال سے پھیلتا ہے، یہ ماں سے بچے تک یا غیر اسکرین شدہ خون کی منتقلی سے بھی پھیل سکتا ہے۔ تاہم کمیونیکیبل ڈیزیز کنٹرول سندھ کے اعداد و شمار کے مطابق سندھ میں تمام ایچ آئی وی انفیکشنز میں سے صرف 0.77 فیصد کی دیکھ بھال کی ترتیبات کے دوران منتقل ہوتے ہیں۔
حنا بلوچ کے مطابق حکومت ایچ آئی وی پازیٹو مریضوں کے علاج کے لیے ڈسپوزایبل سرجیکل کٹس فراہم کرنے کی ذمہ دار ہے، اگر کٹس نہیں فراہم کی جارہی تو حکومت جواب دہ ہے اور اگر وہ فراہم کی جا رہی ہیں تو پھر ان کا استعمال کیوں نہیں کیا جا رہا ہے۔
سال 2016 سے پاکستان میں ایچ آئی وی سے متاثرہ افراد میں 240 فیصد سے زیادہ جبکہ صرف سندھ میں 300 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔
Comments are closed on this story.