Aaj News

جمعہ, نومبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Awwal 1446  

آڈیو لیکس کمیشن : ’پہلے آڈیوز پرججز کی تضحیک کی، پھرسچے ہونے کی تحقیق کروالی‘

ججز پر اعتراض والی حکومتی درخواست پر فیصلہ محفوظ
اپ ڈیٹ 06 جون 2023 03:49pm
تصویر بزریعہ اے ایف پی
تصویر بزریعہ اے ایف پی

سپریم کورٹ میں آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کے خلاف درخواستوں پر سماعت آج ہوئی، چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔

پانچ رکنی لارجر بینچ میں جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس سید حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید شامل ہیں۔

عدالت کی جانب سے اٹارنی جنرل سمیت دیگر فریقین کو نوٹسز جاری کئے جاچکے ہیں۔

’جج کو توہین عدالت کی درخواست میں فریق نہیں بنایا جا سکتا‘

دورانِ سماعت حنیف راہی ایڈووکیٹ نے کہا کہ میری توہین عدالت کی درخواست پر نمبر نہیں لگا۔

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ توہین کا معاملہ عدالت اور توہین کرنے والے کے درمیان ہوتا ہے، آپ کی درخواست پر اعتراضات ہیں تو دور کریں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جج کو توہین عدالت کی درخواست میں فریق نہیں بنایا جا سکتا، ججز کسی صورت پارٹی نہیں بن سکتے۔

خیال رہے کہ حکومت کی طرف سے بینچ کی تشکیل پراعتراض اٹھاتے ہوئے مؤقف اپنایا گیا تھا کہ آڈیو لیکس کا معاملہ چیف جسٹس سمیت بینچ میں موجود کچھ ججز سے متعلق ہے، لہٰذا چیف جسٹس اور دیگر دو ججز جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اخت بینچ سے الگ ہو جائیں۔

لارجر بینچ حکومت کے اِن اعتراضات کو بھی سنے گا۔

درخواست گزاروں میں سے ایک حنیف راہی نے سپریم کورٹ کے حکم امتناع کے باوجود جوڈیشل کمیشن ارکان کی جانب سے کارروائی جاری رکھنے کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی درخواست بھی دائر کی ہے۔

’چیف جسٹس کے اختیارات کسی اور کو تقویض نہیں ہوسکتے‘

اس کے بعد اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان روسٹرم پر آٸے اور گزشتہ سماعت کا حکم نامہ پڑھ کر سنایا۔

چیف جسٹس نے ان سے پوچھا آپ کس پوائنٹ پر بات کرنا چاہیں گے؟

انہوں نے مزید کہا کہ آپ ایک چیز مس کر رہے ہیں، چیف جسٹس پاکستان ایک آٸینی عہدہ ہے، چیف جسٹس کا چارج کوئی اور نہیں استعمال کر سکتا، چیف جسٹس کے علم میں نہیں تھا اور کمیشن بنا دیا گیا۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو کہا کہ ان نکات پر آپ دلائل دیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے مزید کہا کہ چیف جسٹس کے اختیارات کسی اور کو تقویض نہیں ہوسکتے، کیس میں الزام کیا ہے یہ معلوم نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ عدالتی فیصلوں کے حوالے پڑھنے سے پہلے قانون کو سمجھیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں پہلے بینچ کی تشکیل پر دلائل دوں گا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ اس پوائنٹ پر جارہے ہیں کہ ہم میں سے تین متنازع ہیں؟ اگر اس پر جاتے ہیں تو آپ کو بتانا ہوگا، میں چاہوں گا آپ زیادہ اہم ایشو پر فوکس کریں، دوسرا اور اہم ایشو عدلیہ کی آزادی کا ہے۔

اٹارنی جنرل نے آڈیو لیکس کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنسز (ٹی او آرز) پڑھ کر بھی سنائے۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ لیک آڈیوز میں سے ایک چیف جسٹس کی ساس سے متعلق ہے۔

جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ کیا آپ کا اس وقت کیس یہ ہے کہ آڈیوز بادی النظرم میں درست ہیں؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاقی حکومت نے اس معاملہ پر ابھی صرف کمیشن بنایا ہے، حقائق جاننے کے لیے ہی تو کمیشن بنایا گیا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے اسفتسار کیا کہ کیا وفاق کو علم نہیں کہ آڈیوز مصدقہ ہیں یا نہیں؟

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سینئر کابینہ ممبر نے اس پر پریس کانفرنس بھی کر دی، کیا یہ درست نہیں کہ وزیر داخلہ آڈیوز پر پریس کانفرنس کرچکے؟ پریس کانفرنس میں کچھ آڈیوز چلا بھی دی گئیں۔ کیا درست ہے جسے آڈیوز کی حقیقت کا نہیں پتا وہ بینچ پر اعتراض اٹھائے، میں آپ کی درخواست کے قابل سماعت ہونے کا پوچھ رہا ہوں۔

جسٹس منیب اختر کا مزید کہنا تھا کہ وزیرداخلہ نے پریس کانفرنس کیوں کی؟ کیا ایسی لاپرواہی برتی جاسکتی ہے؟ ایسے بیان کے بعد تو وزیر کو ہٹادیا جاتا یا وہ مستعفی ہوجاتا۔

جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ میرےعلم میں نہیں اگر کسی نے کوئی پریس کانفرنس کی۔ عدالت یہ دیکھے وزیر داخلہ کا بیان 19 مئی سے پہلے کا ہے یا بعد کا۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ وزیر اگر چائے پینے کا کہے تو الگ بات ہے، یہاں بیان اہم ایشو پر دیا، اتنے اہم ایشو پر کابینہ کی اجتماعی ذمہ داری سامنے آنی چاہیے تھی۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ واہ کیا طریقہ ہے اور عدلیہ کے ساتھ کیا انصاف کیا ہے، پہلے آڈیوز پر ججز کی تضحیک کی، پھر سچے ہونے کی تحقیق کروالی۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ یہ تو آسان ہوجائے گا، کسی جج کو کیس سے ہٹانا ہے تو آڈیو بنادو۔

جسٹس منیب نے مزید کہا کہ کیس سے الگ ہونے کے پیچھے قانونی جواز ہوتے ہیں۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت اس معاملے کو انجام تک پہنچانا چاہتی ہے۔

جس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا سوال یہ ہے کہ آڈیوز کس نے پلانٹ کی ہیں، حکومت نے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ یہ کون کر رہا ہے؟

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ حکومت کمیشن کے ذریعے اس معاملے کو بھی دیکھے گی۔ کالز کیسے ریکارڈ کی گٸیں کمیشن میں جاٸزہ لیا جائے گا، ابھی تو یہ معاملہ انتہائی ابتدا کی سطح پر ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاقی حکومت کے مطابق یہ آڈیوز مبینہ آڈیوز ہیں، وفاقی حکومت کا یہی بیان دیکھا جانا چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ کابینہ کےعلاوہ کسی وزیر کا ذاتی بیان حکومت کا بیان نہیں۔

جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ وزیرخزانہ کچھ بیان دے تو وہ بھی حکومت کا نہ سمجھا جائے؟

اٹرانی جنرل نے کہا کہ ہماری اس سارے معاملہ پر کوئی بدنیتی نہیں، استدعا ہے کہ بینچ تبدیلی کی درخواست کو زیرِ غور لائیں۔

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا اعتراض دو اور ججز پر بھی ہے۔

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ہماری درخواست کا متن آپ کے سامنے ہے، جائزہ لے لیں۔

جس کے بعد بینچ تبدیلی کی حکومتی درخواست پر اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل مکمل کرلئے۔

’حکومت مدعی ہے اور خود ہی بینچ تشکیل دینا چاہتی ہے‘

اٹارنی جنرل کے بعد درخواست گزار عابد زبیری کے وکیل شعیب شاہین نے اپنے دلائل شروع کئے۔

شعیب شاہین نے کہا کہ آڈیوز کو درست سمجھ کر کہہ دیا گیا کہ عدلیہ کی آزادی متاثر ہوئی، کمیشن کے قیام کے ٹی او آرز میں آڈیو ٹیپ کرنے والے کا ذکر نہیں، ساری آڈیوز پنجاب الیکشن سے متعلق سوموٹو کے بعد آئیں۔

انہوں نے سوال اٹھایا کہ یہ آڈیو ریکارڈنگز کس نے کی؟

شعیب شاہین نے کہا کہ تمام آڈیوز ایک ہی ہیکر کے ذریعہ منظر عام پر لائی گئیں، اٹارنی جنرل جس فیصلے کا حوالہ دے رہے ہیں وہ تو اقلیتی رائے تھی۔

وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ اگر کسی پر اعتراض ہو تو بھی اس جج پر کیس سننے کی ممانعت نہیں، حکومت مدعی ہے اور خود ہی بینچ تشکیل دینا چاہتی ہے۔

ججز پر اعتراض کرنے والی حکومتی درخواست پر فیصلہ محفوظ

سپریم کورٹ نے چیف جسٹس سمیت تین ججز پر اعتراض کرنے والی حکومتی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آڈیو لیکس کیس میں ہم نے تمام فریقین کو سن لیا ہے، ہم اس درخواست پر سوچ بچار کریں گے۔

سماعت ملتوی

بعد ازاں، سپریم کورٹ نے آڈیو لیکس کمیشن کو کام سے روکنے کے حکم امتناع میں توسیع کردی۔

لارجر بنچ نے آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کے خلاف دائر وفاقی حکومت کی آئینی درخواستوں پر سماعت مکمل کرتے ہوئے ملتوی کردی۔

انکوائری کمیشن کے خلاف درخواستیں

چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان، صدر و سیکریٹری سپریم کورٹ بار اور ایڈووکیٹ حنیف راہی نے درخواستیں دائر کر رکھی ہیں۔

آخری سماعت کا حکم نامہ

سپریم کورٹ نے آڈیو لیکس کمیشن کیس کی آخری سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا ہے۔

سپریم کورٹ کی جانب سے جاری حکم نامے کے مطابق اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وفاقی حکومت نے پانچ رکنی لارجر بنچ پر اعتراض کردیا ہے ( جس پر آج دلائل سنے جانےکی توقع ہے)، ججز کے خلاف وفاق نے تحریری درخواست بھی دے دی ہے، رجسٹرار آفس وفاقی حکومت کی درخواست کو رجسٹرڈ کرے۔

سپریم کورٹ کے حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ آڈیو لیکس کمیشن کے جواب پر فریقین جواب جمع کرا سکتے ہیں۔

گزشتہ سماعتوں کا پس منظر

گزشتہ کچھ عرصے کے دوران کئی عدلیہ یا ججز سے منسوب آڈیوز سامنے آئی تھیں۔

اکیس مئی کو وفاقی حکومت نے ججز کی آڈیو لیکس کے معاملے پر تحقیقات کے لیے کمیشن قائم کیا تھا، جس کے سربراہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ہیں، چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ جسٹس نعیم اختر افغان اور چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق کمیشن کے ارکان میں شامل ہیں۔

پچیس مئی کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کی تشکیل کے خلاف دائر درخواست 26 مئی کو سماعت کے لیے مقرر کی تھی۔

چھبیس مئی کو سپریم کورٹ نے آڈیو لیکس کمیشن کی تحقیقات کے لیے تشکیل دیے گئے کمیشن کا نوٹی فکیشن معطل کرتے ہوئے اٹارنی جنرل سمیت دیگر فریقین کو نوٹسز جاری کردیے تھے، جبکہ 30 مئی کو وفاقی حکومت نے آڈیو لیکس کمیشن کی تشکیل کے خلاف درخواست پر سماعت کرنے والے بینچ پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے نیا بینچ تشکیل کرنے کی درخواست دائر کردی تھی۔

Supreme Court of Pakistan

Audio leaks Inquiry Commission

Politics June 6 2023