چین میں مسجد کے انہدام کے بعد جھڑپیں، گرفتاریوں کے بعد پولیس تعینات
چین میں پولیس نے ایک قدیم مسجد کو مسمار کرنے سے روکنے والے مظاہرین کو ”سماجی نظم میں خلل ڈالنے“ اور ”مجرمانہ کارروائیوں“ روکنے کیلئے انتباہ جاری کیا ہے۔
منصوبہ بندی کے تحت منہدم کی گئی مسجد پر ہفتے کے آخر میں ہونے والی جھڑپوں کے بعد حکام نے مسلمانوں کی کثیر تعداد والے قصبے ناگو میں سینکڑوں پولیس اہلکاروں کو تعینات کیا اور گرفتاریاں بھی کیں۔
چین کے جنوب مغربی صوبہ یونان کے قصبے ناگو کے ایک رہائشی نے پیر کو انتقام کے خوف سے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ حکام نے حال ہی میں 13ویں صدی کی ناجیائینگ مسجد کے چار میناروں اور گنبد کی چھت کو گرایا ہے۔
حالیہ برسوں میں مسجد کے میناروں اور گنبد کی چھت کو توسیع دی گئی تھی، اور ایک مقامی عدالت نے ان اضافوں کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔
یونان میں حوثیوں کا ایک بڑا علاقہ ہے، جو کہ ایک مسلم نسلی گروہ ہے اور ایک وسیع کریک ڈاؤن کی وجہ سے دباؤ میں آگیا ہے۔
چینی صدر شی جن پنگ نے کمیونسٹ پارٹی کو ہدایت کی ہے کہ وہ ملک کی نسلی اور مذہبی اقلیتوں کو ”Sinicise“ (چینی اطوار اختیار کرانا) کرے۔
’ہم انہیں کرنے نہیں دیں گے‘
ہفتے کو لاٹھیاں اور ڈھالیں اٹھائے درجنوں اہلکاروں نے مسجد کے باہر موجود ایک ہجوم کو پیچھے ہٹایا، اس دوران ہجوم نے ان پر مختلف اشیاء پھینکیں۔
ایک مقامی خاتون نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ ”وہ زبردستی مسماری کرنا چاہتے تھے، اسی لئے یہاں کے لوگ انہیں روکنے کے لیے گئے۔“
انہوں نے کہا کہ مسجد ہم جیسے مسلمانوں کا گھر ہے۔ اگر وہ اسے گرانے کی کوشش کرتے ہیں تو ہم یقینی طور پر انہیں نہیں کرنے دیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ”عمارتیں صرف عمارتیں ہیں، ان سے لوگوں یا معاشرے کو کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ انہیں تباہ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟“
دو عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ پولیس نے اس واقعے پر ایک غیر متعین تعداد میں گرفتاریاں کی ہیں اور پیر تک کئی سو اہلکار قصبے میں موجود رہے۔
ٹونگائی حکومت جو ناگو کا انتظام سنبھالتی ہے، اس کی طرف سے اتوار کو جاری کردہ نوٹس میں نے کہا گیا کہ اس نے ”ایک ایسے معاملے کی تحقیقات شروع کی جس نے سماجی نظم و نسق کو بری طرح متاثر کیا ہے“۔
نوٹس میں، ملوث افراد کو ”تمام غیر قانونی اور مجرمانہ کارروائیوں کو فوری طور پر بند کرنے“ کا حکم دیا گیا ہے، اور کہا گیا ہے کہ وہ کسی بھی ایسے شخص کو ”سخت سزا“ دیں گے جو خود کو تبدیل کرنے سے انکار کرے گا۔
ٹانگائی حکومت نے کہا کہ، ”جو لوگ رضاکارانہ طور پر (6 جون تک) ہتھیار ڈالتے ہیں اور سچائی سے خلاف ورزیوں اور جرائم کے حقائق کا اعتراف کرتے ہیں، انہیں قانون کے مطابق ہلکی اور کم سزا دی جا سکتی ہے۔“
چین نے ایک دہائی قبل صدر شی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے مذہب کو سختی سے کنٹرول کرنے کی کوشش کی ہے، اور مسلمانوں کے خلاف کریک ڈاؤن کے دفاع میں بیجنگ کا دعویٰ ہے کہ وہ ”دہشت گردی اور انتہا پسندانہ سوچ“ کا مقابلہ کرنے کے لیے کام کر رہا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق 2017 سے مغربی سنکیانگ کے علاقے میں ایک ملین ایغور، ہوئی اور دیگر مسلم اقلیتوں کو ”دوبارہ تعلیم“ کی حکومتی مہم کے تحت حراست میں لیا گیا ہے۔
Comments are closed on this story.