’آئین میں سپر ریویو نہیں کیا نواز اور ترین کو تاحیات نا اہلی سے چھٹکارا ملے گا‘
آئین میں سپر ریویو نہیں کیا نواز اور ترین کو تاحیات نا اہلی سے چھٹکارا ملے گا۔ وفاقی وزیر خرم دستگیر اور ماہر قانون منیب فاروق کا کہنا ہے کہ یہ قانون سرپرائز نہیں ہے، نظر ثانی کی اپیلیں دائر کی جاچکی ہیں اب صرف اپیل کرکے نیا مواد عدالت کے سامنے رکھا جاسکتا ہے۔
آج نیوز کے ”پروگرام فیصلہ آپ کا“ میں بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر خرم دستگیر نے کہا کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے دستخط سے سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ 2023 قانون بن گیا۔ یہ کوئی سرپرائز نہیں ہے اور نہ اسے رات کی تاریکی میں لایا گیا بلکہ بل کو قومی اسمبلی نے 14 اپریل کو دن کے اجالے میں پاس کیا۔
انھوں نے کہا کہ قومی اسمبلی سے بل پاس ہونے کے تین ہفتوں بعد سینیٹ نے اسے منظور کیا ۔ دونوں ایوانوں سے منظوری کے بعد اسے ایوان صدر بھیجا گیا۔ صدر نے بھی اسے پاس کرنے کے لئے تین ہفتے کا بڑا وقت لیا۔ ہاں یہ ضرور ہوا کے ڈاکٹر عارف علوی نے حکومت کے خلاف اپنی روایت سے ہٹ کر فیصلہ کیا اور بل پر دستخط کیے۔
خرم دستگیر کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے معاملات میں شفافیت ہونی چاہئے، 1980 میں سپریم کورٹ کے رولز بنے تھے، جنھیں بنے ہوئے 43 سال ہو گئے ہیں اور 1980میں ملٹری لیڈر شپ کا دور تھا کیا سپریم کورٹ کو اُسی دور میں ہی منجمند رہنا ہے یا پھر عدالت عظمی نے آگے بڑھنا ہے۔
ماہر قانون منیب فاروق کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ 2023 قانون بن گیا ہے۔ حکومت نے اسے بڑی ذہانت سے پاس کروایا ہے، لیکن منظوری کے فوراً بعد یہ کنفیوژن پیدا ہوئی کہ اس سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف یا عمران خان کے پرانے ساتھی جہانگیر ترین کو فائدہ ہوگا۔
انھوں نے کہا کہ سمجھا جارہا تھا کہ نئے قانون کے بعد نواز شریف اور جہانگیر ترین کی نا اہلی فوری ختم ہوجائے گی لیکن ایسا نہیں ہے یہ دونوں افراد نظر ثانی کی اپیلیں دائر کرچکے ہیں اور یہ آپشن اب ان کے پاس نہیں رہا۔ پاکستان کے آئین میں سپر ریویو نہیں ہے۔
سینئر صحافی اطہر کاظمی کا کہنا تھا کہ جب لوگوں کو بل کا پتا چلا تو اسے نواز شریف اور جہانگیر ترین سے جوڑنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس معاملے پر اب نظر ثانی کا تو نہیں کہہ سکتے ہاں البتہ سپریم کورٹ میں اپیل ہوسکتی ہے، نیا مواد عدالت عظمیٰ کے سامنے رکھا جاسکتا ہے، کیونکہ چیف جسٹس اس حوالے سے کسی مقدمے میں ریمارکس بھی دے چکے ہیں کہ اگر کوئی مسئلہ تھا تو فریقین اُسی وقت اپیل میں لکھ کر دے دیتے۔
انھوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ الیکشن کے حوالے سے جو کیس زیر سماعت ہے اس میں حکومت کو مشکلات درپیش ہوسکتی ہیں۔ اس قانون کا پہلا مقصد تو الیکشن فیصلے میں جو توہین عدالت کا خطرہ ہے اسے روکنے کی کوشش لگتا ہے۔ جبکہ عدالت کے خلاف محاذ آرائی شروع ہوچکی ہے جس کی ماضی میں نظیر نہیں ملتی اور لگ رہا ہے کہ محاذ آرائی کا سلسلہ چلتا رہے گا۔
Comments are closed on this story.