خالی عہدوں پر نئے لوگ لگاؤں گا، ہوسکتا ہے وہ بھی گرفتار ہوجائیں، عمران خان
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ فوج کا حکمرانی میں کوئی لینا دینا نہ رہے، ایسا نہیں ہو گا۔ خدشہ ہے کہ مجھے اور نئے عہدیداروں کو بھی حراست میں لے لیا جائے گا۔
پاکستان کے لیے بی بی سی کی نمائندہ کیرولین ڈیویز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں عمران خان نے کہا کہ ’پاکستان میں فوج گذشتہ 70 برسوں سے بلواسطہ یا بلاواسطہ اقتدار میں رہی ہے اور یہ سوچنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے کہ فوج کا حکمرانی میں کوئی لینا دینا نہ رہے، ایسا نہیں ہو گا۔‘
نئے عہدیداروں کو بھی حراست میں لے لیا جائے گا
سابق وزیراعظم سے پوچھا گیا کہ موجودہ صورتحال میں وہ جماعت کو کیسے چلائیں گے؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ ’سب سے پہلے میں خالی ہو جانے والے عہدوں پر تقرریاں کروں گا، تاکہ نوجوان لوگوں کو آگے لایا جا سکے، اور مجھے خدشہ ہے کہ انھیں (نئے عہدیداروں کو) بھی حراست میں لے لیا جائے گا۔ ممکن ہے یہ مجھے جیل میں ڈال دیں گے۔‘
بڑا بحران نہیں
عمران خان نے میزبان کو مخاطب کرتے ہوئے مزید کہا کہ ’آپ سمجھتی ہوں گی کہ یہ میرے لیے بڑا بحران ہے مگر میں ایسا نہیں سوچتا، درحقیقت ہمیں مارشل لا کا سامنا ہے۔ میں حیران ہوں کہ وہ اس سب سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارے معاشی اشاریے بدترین صورتحال کا بتا رہے ہیں، میں یہ جاننے کے لیے متجسس ہوں کہ اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے ہمیں دوڑ سے باہر رکھنا ملک کے لیے کیسے فائدہ مند ہو گا۔‘
نئی تقرریاں
عمران خان کا کہنا تھا کہ نو مئی کے واقعات کے تناظر میں پی ٹی آئی کو چھوڑ جانے والے رہنماؤں کے بعد خالی ہو جانے والے عہدوں پر وہ نئی تقرریاں کریں گے تاکہ نوجوانوں کو آگے لایا جا سکے۔ فی الحال میں صورتحال کا جائزہ لے رہا ہوں اور’دیکھو اور انتظار کرو’ کی پالیسی پر عمل پیرا ہوں۔
جلاؤ گھیراؤ میں کون ملوث
چیئرمین تحریک انصاف کا کہنا تھا کہ انھوں نے ماضی میں اپنے حامیوں سے کوئی ایسی بات نہیں کی جس کا نتیجہ نو مئی جیسے واقعات کی شکل میں سامنے آتا۔ ’یہ درست نہیں ہے کہ ہمارے لوگ پولیس اور آرمی کی عمارتوں پر حملے کرنے والے ہجوم کا حصہ تھے۔ اس کی آزادانہ انکوائری ہونی چاہیے، جس روز مجھے حراست سے رہائی ملی تھی اس روز میں نے یہ مطالبہ کر دیا تھا۔ اس بات کی آزادانہ انکوائری ہونی چاہیے کہ جلاؤ گھیراؤ میں کون ملوث تھا۔‘
ریڈ لائن
’عمران خان ہماری ریڈ لائن ہیں‘ جیسے نعروں پر بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’ریڈ لائن جیسی اصطلاح کا مطلب یہ ہے کہ ایک ایسا ملک جہاں قانون کی حکمرانی نہیں ہے، جہاں لوگوں کو اٹھا لیا جاتا ہے اور اگر ایسی صورتحال میں وہ مجھے جیل میں بند کریں گے تو اس کا ایک ردعمل ہو گا۔ اگر وہ کہتے ہیں کہ عمران خان ہماری ریڈ لائن ہے تو کیا میں یہ کہتا کہ میں ریڈ لائن نہیں ہوں۔ مجھے کیا کہنا چاہیے تھا؟‘
ووٹ بینک
پی ٹی آئی کی جانب سے مذاکرات کی آفر کے معاملے پر عمران خان نے کہا ’میری پوزیشن اس وقت کمزور ہو گی جب میں اپنا ووٹ بینک کھو دوں گا۔ کوئی بھی سیاسی جماعت کمزور اس وقت ہوتی ہے جب اس کا ووٹ بینک سکڑنے لگتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’میں بات چیت اس لیے کرنا چاہتا ہوں تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ یہ سوچ کیا رہے ہیں۔ میں نے انھیں کہا ہے کہ آپ مجھے اس بات پر متفق کر لیں کہ یہ سب پاکستان کے لیے درست ہے تو میں متفق ہو جاؤں گا۔‘
سابق وزیراعظم نے کہا کہ ’ہر صورت میں موجودہ سال الیکشن کا سال ہے۔ چنانچہ ہم ہر صورت میں اس الیکشن کے لیے مہم چلائیں گے۔ ہماری پوری جماعت، تمام سینیئر لیڈرشپ کو جیل میں ڈال دیا گیا ہے، اگر قانون کی حکمرانی ہو تو ایسا نہیں ہوتا۔‘
جب اپوزیشن ہی باقی نہ رہے
انھوں نے مزید کہا کہ ’ایک سیاسی اپوزیشن ہونا، عوامی اجتماعات کا انعقاد کرنا، اپنے لوگوں میں آگاہی پیدا کرنا اور انھیں آئندہ آنے والے الیکشن کے لیے متحرک کرنا: یہ سب چیزیں کیسے اور کب سے جمہوریت کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کا باعث بن گئی ہیں؟ درحقیقت جمہوریت اس وقت ختم ہو جاتی ہے جب اپوزیشن ہی باقی نہ رہے۔‘
عمران خان کے دور حکومت میں اپوزیشن رہنماؤں کے جیل میں ہونے سے متعلق سوال پر انھوں نے کہا کہ ’آپ اُس صورتحال اور موجود صورتحال کا تقابل بھی نہیں کر سکتے، ایسا ہرگز نہیں۔ ہمارے دور میں اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف جو کیس تھے ان میں سے 95 فیصد ایسے تھے جو ہمارے اقتدار میں آنے سے پہلے بنے ہوئے تھے۔‘ اپوزیشن کے وہ کیس ہماری حکومت کو ورثے میں ملے تھے۔
’ہم نے ان کے خلاف نئے کیس نہیں بنائے۔ دوسری جانب گزشتہ چند مہنوں میں میرے خلاف 150 سے زائد کیس بنائے گئے ہیں، ایسا ملک کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا۔ آپ کو حقائق درست رکھنے چاہئیں۔ ہماری حکومت کو ان (اپوزیشن) کے کیسز ورثے میں ملے تھے، یہ کرپشن کیسز تھے جو اس وقت بنے تھے جب وہ خود اقتدار میں تھے۔‘
”اسٹیبلشمنٹ ملک کو معاشی تباہی میں گرنے کی اجازت کیسے دے رہی ہے“؟
عمران خان نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا کہ قانون کی حکمرانی کو پوری طرح پسِ پشت ڈالتے ہوئے یہ فسطائی حکومت جنرل مشرف کے مارشل لاء کو کہیں پیچھے چھوڑتے ہوئے، تحریک انصاف کو کچلنے کے یک نکاتی ایجنڈے پر کار بند ہے۔
انھوں نے مزید لکھا کہ اس دوران ملکی معیشت اوندھے منہ تباہی کی گہری کھائی میں گرتی جارہی ہے۔ اوپن مارکیٹ میں ڈالر 315 روپے میں فروخت ہورہا ہے جبکہ شناختی کارڈ نہ رکھنے والوں کیلئے تو یہ 320 سے 325 روپے میں دستیاب ہے۔ سرکاری اور اوپن مارکیٹ کے نرخ میں 30 روپے فی ڈالر کا فرق ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے ٹوئٹ میں مزید لکھا کہ معیشت میں ڈالرز کی ذخیرہ اندوزی، روپے کے مقابلے میں ڈالرز پر عوام اور کاروباری طبقے کے غیر معمولی اعتماد کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ ملک میں مقامی یا غیر ملکی سرمایہ کاری نا پید ہے جس سے مجموعی قومی پیداوار (GDP) مزید سکڑ جائے گی یا معیشت کو اس سے بھی شدید دھچکہ پہنچے گا اور ملک نہایت بلند افراطِ زر (شدید ترین مہنگائی/ ہائیپر انفلیشن) کے چنگل میں پھنسے گا۔
حکومت پر تنقید کرتے ہوئے عمران خان نے مزید کہا کہ پی ڈی ایم رہنماؤں کے اربوں ڈالرز بیرونِ ملک تجوریوں میں محفوظ ہیں، انہیں معیشت کی تباہی کی رتّی بھر بھی فکر نہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے پاکستانی مقتدرہ (اسٹیبلشمنٹ) ملک کو مکمل معاشی تباہی و بدحالی کی دلدل میں گرنے کی اجازت کیسے دے رہی ہے؟
اس سے قبل چیئرمین تحریک انصاف نے اپنے ایک ٹوئٹ میں ترک صدر رجب طیب اردوان کو الیکشن جیتنے پر مبارکباد دی تھی۔ انھوں نے لکھا کہ اپنی قوم کی ایماء پر میں اردوان کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کیونکہ انہیں پاکستان کا دوست تصور کیا جاتا ہے۔
عمران خان نے ٹویٹ میں مزید لکھا تھا کہ میری دعا ہے کہ بطور صدر ان کا یہ پانچ سالہ نیا دور ترکیہ کے عوام کیلئے خوشحالی کا وسیلہ بنے۔
Comments are closed on this story.