مشال خان کی بہن نےاپنی ڈگری بھائی کے نام کردی
مردان میں یونیورسٹی کے احاطے میں انتہا پسند ہجوم کے ہاتھوں قتل کر دیے جانے والے مشال خان کی بہن نے نیویارک سے بائیو میڈیکل انجینئرنگ میں ڈگری حاصل کی ہے، ستوریہ منے اس کامیابی کواپنے بھائی کے نام کیا۔
ستوریہ نے ٹوئٹرپر گریجویشن کی تقریب کی تصاویر پوسٹ کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے اسٹیٹ یونیورسٹی آف نیو یارک - یونیورسٹی آف بفیلو سے بایومیڈیکل انجینئرنگ میں گریجویشن کیا ہے۔ بفیلو امریکی ریاست نیویارک کا دوسرا سب سے بڑا شہر ہے۔
ستوریہ نے اپنی کامیابی شیئرکرتے ہوئے مزید لکھا کہ، ’میں اپنی ڈگری شہید علم مشال خان کے نام کرتی ہوں‘۔
سوات میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے آواز اٹھانے والی نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی کے والد ضیاء الدین یوسفزئی نے بھی اپنے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ پر تصاویر شیئرکرتے ہوئے ستوریہ خان مشال کومبارکباد دی۔
ضیاء الدین یوسفزئی نے اپنی ٹویٹ میں لکھا، ’ آئیں اس کہانی کی خوشی منائیں، مشال خان شہید کی بہن جنہوں نے مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے اسٹیٹ یونیورسٹی آف بفیلو سے بائیو میڈیکل انجینئرنگ میں گریجویشن کیا ہے’۔
انہوں نے مشال خان کی بہن کی حصول علم کیلئے کی جانے والی جدو جد کو سراہتے ہوئے لکھا کہ ان کا جذبہ اور لگن سبھی کے لئے ایک تحریک ہے۔ ستوریہ ننے اپنی کامیابی مشال خان اور تعلیم کے حق کے لیے لڑنے والی تمام افغان لڑکیوں کے نام کی ہے۔
مشال خان کون تھے؟
13 اپریل 2017 کو ایک انتہا پسند ہجوم کے ہاتھوں مردان کی ولی خان یونیورسٹی میں زیر تعلیم مشال کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا جس کے بعد ان افواہوں کو تقویت ملی تھی کہ انہوں نے آن لائن توہین آمیز مواد پوسٹ کرکے توہین مذہب کا ارتکاب کیا ۔
23 سالہ نوجوان کو یونیورسٹی کے احاطے میں شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ وحشیانہ واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد اس معاملے کی گونج عالمی سطح پربھی سنی گئی اور پاکستان میں توہین مذہب کے قوانین کے غلط استعمال پر بحث چھڑ گئی۔
جون 2017 میں 13 رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم اس نتیجے پر پہنچی تھی کہ مشال خان کے خلاف توہین مذہب کے الزامات بے بنیاد تھے ۔7 فروری 2018 کو انسداد دہشتگردی عدالت نے کیس کے مرکزی ملزم کو سزائے موت جبکہ پانچ دیگر کو 25 سال قید کی سزا سنائی تھی۔
انسداد دہشت گردی کی عدالت نے 26 ملزمان کو بری کردیا جبکہ 25 ملزمان کو 3 سال قید کی سزا سنائی۔
خیبرپختونخوا حکومت اور مشال خان کے والد کی جانب سے متعدد اپیلیں دائر کی گئی تھیں جن میں 28 ملزمان کی بریت کو کالعدم قرار دینے، 3سال قید کی سزا پانے والے 25 مجرموں اور عمر قید کی سزا والے 7 دیگر مجرموں کی سزاؤں میں اضافے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
جنوری 2022 میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے مشال قتل کیس میں ملوث مجرموں کی سزاؤں میں اضافے کے لیے خیبر پختونخوا حکومت کی اپیلوں کو سماعت کیلئے منظور کیا۔
Comments are closed on this story.