Aaj News

پیر, دسمبر 23, 2024  
20 Jumada Al-Akhirah 1446  

الیکشن کمیشن نے صدر کو ایک دن انتخابات کی ایڈوائس کیوں نہیں دی، چیف جسٹس

جس نے آپ کو وضاحت کرنے کا کہا اسے ہمارا بتا دیں ہمارا دل صاف ہے، چیف جسٹس کا اٹارنی جنرل سے مکالمہ
اپ ڈیٹ 24 مئ 2023 01:53pm

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ عدالت صاف دل کے ساتھ بیٹھی ہے، ہم اللہ کے لیے کام کرتے ہیں اس لیے چپ بیٹھے ہیں۔

پنجاب انتخابات پر الیکشن کمیشن کی نظرثانی درخواست پر سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی، چیف جسٹس عمرعط ابندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر بنچ کا حصہ ہیں۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کے دلائل

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان روسٹرم پر آئے اور عدالت کے سامنے دلائل شروع کئے، اور کہا کہ اس سے پہلے کہ الیکشن کمیشن کے وکیل دلائل دیں میں کچھ کہنا چاہتا ہوں، گزشتہ روزعدالت کی جانب سے کچھ ریمارکس دئے گئے، عدالت نے کہا جونکات پہلے نے نہیں اٹھایا وہ کیوں رکھ رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ گھبرا کیوں رہے ہیں آپ نے گھبرانا نہیں ہے، عدالت آپ کی سماعت کیلئے بیٹھی کوئی معقول نقطہ اٹھائیں، سن کرفیصلہ کریں گے، آپ نے نکات بےشک اٹھائے لیکن ان پربحث نہیں کی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ کل نظرثانی کے دائرہ اختیار پر بات ہوئی تھی، ماضی کو حکومت کیخلاف استعمال نہیں کریں گے، حکومت کی نہیں اللہ کی رضا کے لیے بیٹھے ہیں، اور بہت سی قربانیاں دے کر یہاں بیٹھے ہیں، آپ اپنے ساتھیوں سے کہیں ہمارے دروازے پر ایسی باتیں نہ کریں، ایوان میں گفتگو بھی سخت نہ کیا کریں۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اپنے ساتھیوں سے کہیں اتنے بڑے ایوان میں کھڑے ہوکراتنی سخت باتیں نہ کریں، ہم اللہ کے لیے کام کرتے ہیں اس لیے چپ بیٹھے ہیں، جس ہستی کا کام کر رہے ہیں وہ بھی اپنا کام کرتی ہے، آپ صفائیاں نہ دیں عدالت صاف دل کے ساتھ بیٹھی ہے، جس نے آپ کو وضاحت کرنے کا کہا اسے ہمارا بتا دیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہماری ہرچیز درست رپورٹ نہیں ہوتی، کہا گیا عمران خان کوعدالت نے مرسیڈیزدی تھی، میں تو مرسیڈیز استعمال ہی نہیں کرتا، پولیس نے عمران خان کی مرسیڈیزکا بندوبست کیا تھا، اس بات کو پتہ نہیں کیا سے کیا بنا دیا گیا۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ ہم کچھ نہیں کرسکتے لیکن وہ ہستی اپناکام کرتی ہے، ہم نے توآپ کو دیکھ کر کھلے دل سے“گڈ ٹو سی یو“ کہا، کسی اور طریقے سے کہی گئی باتیں رپورٹ ایسے ہوئیں کہ ان سے تاثرغلط گیا، اٹارنی جنرل صاحب آپ پرسکون رہیں بیٹھ جائیں، ابھی الیکشن کمیشن کے وکیل کو سنتے ہیں پھر آپ کے مفید دلائل بھی سنیں گے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل کے دلائل

الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی دلاٸل دینے روسٹرم پر آٸے اور مؤقف پیش کیا کہ عدالت ہمیشہ آئین کی تشریح زندہ دستاویز کے طور پرکرتی ہے، انصاف کا حتمی ادارہ سپریم کورٹ ہے، اس لئے دائرہ کار محدود نہیں کیا جاسکتے، مکمل انصاف اور آرٹیکل 190 کا اختیار کسی اورعدالت کو نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا 150 سال کی عدالتیں نظیریں غیر مؤثر ہو گئی ہیں، عدالتی نظیروں کے مطابق نظرثانی اور اپیل کے دائرہ کار میں فرق ہے، اس سوال کا جواب آپ نے کل سے نہیں دیا۔

جسٹس منیب اختر کے ریمارکس

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ دائرہ کار پر آپ کی دلیل مان لیں تو سپریم کورٹ رولز کالعدم ہو جائیں گے، سپریم کورٹ رولز میں نظرثانی پر ابھی تک کوئی ترمیم نہیں کی گئی، دائرہ کار بڑھایا تو کئی سال پرانے مقدمات بھی آجائیں گے۔

جسٹس منیب اختر نے سوال اٹھاتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ کیسے ہوسکتا سپریم کورٹ رولز کا نظرثانی سے متعلق آرڈر 26 پورا لاگو نہ ہو، آرڈر 26 پورا لاگو نہ ہونے سے نظرثانی دائر کرنے کی مدت بھی ختم ہو جائے گی، کیا دس سال بعد کوئی نظرثانی دائر کر کے کہہ سکتا ہے رولز مکمل لاگو نہیں ہوتے، آپ کو شاید اپنی دلیل مانے جانے کے نتائج کا اندازہ نہیں ہے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے جواب دیا کہ نظرثانی دائر کرنے کے لیے مدت ختم نہیں ہونی چاہیئے۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ 70 سال میں یہ نقطہ آپ نے دریافت کیا ہے تونتائج بھی بتائیں۔ جسٹس اعجازالحسن نے ریمارکس دیئے کہ نظرثانی کا دائرہ کار سپریم کورٹ رولز میں موجود ہے۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ رولز نظرثانی کے آئنی اقدام پر قدغن نہیں لگا سکتے۔

جسٹس اعجازالحسن کے ریمارکس

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آئین میں تو نظرثانی دائر کرنے کی مدت بھی نہیں دی گئی، کیا فیصلے کے 20 سال بعد نظرثانی دائر ہو سکتی ہے، اگر نظرثانی کی مدت والا رول لاگو ہو سکتا ہے تو دائرہ کار کیسے نہیں ہوگا۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ سپریم کورٹ رولز بنانے والوں نے دائرہ کار آئینی مقدمات میں محدود نہیں رکھا، ملک کے تین بہترین ججز کے سامنے اپنا مقدمہ پیش کررہا ہوں، وقت کے ساتھ قانون تبدیل ہوتا رہتا ہے۔

چیف جسٹس کے ریمارکس

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 184/3کا استعمال بہت بڑھ گیا ہے، احساس ہوا ہے کہ اس سے غلطیاں بھی ہوسکتی ہیں، آپ کی نظرمیں نظرثانی کا دائرہ محدود ہونا درست نہیں ہے، آپ چاہتے ہیں نظرثانی میں دائرہ وسیع کیا جائے، اس نقطہ پراٹارنی جنرل سے رائے لیں گے، اب اصل مقدمہ کی جانب آئیں، اس پر بھی دلائل دیں۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے جواب دیا کہ انتخابات کی تاریخ دینے کا معاملہ پہلی بارعدالت آیا تھا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالت توقع کرتی ہے کہ ایسے قانون کے حوالے بھی دئیے جائیں گے، الیکشن کمیشن نےکہا تھا سیکیورٹی اور فنڈز دے دیں انتخابات کروا دیں گے، اب ان تمام نکات کی کیا قانونی حیثیت ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 9 رکنی بینچ نے اپنے حکم میں اہم سوالات اٹھائے تھے، سیاسی جماعتوں کے مفادات کہیں اور جڑے ہوئے تھے، قانونی نکات پرلائل کی بجائے بینچ پراعتراض کیا گیا، عدالتی حکم پر ہی 9 رکنی سے 5 رکنی بینچ بنا، 7 رکنی بینچ عدالت کے حکم پر بنا ہی نہیں تو 4/3 کا فیصلہ کیسے ہو گیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالت دومنٹ میں فیصلہ کرسکتی ہے کہ نظرثانی خارج کی جاتی ہے، لیکن عدالت قانونی نکات پر سن کر فیصلہ کرنا چاہتی ہے، آسانی سے کہہ سکتے ہیں آپ نے سواری مس کردی۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ عدالتی حکم پر الیکشن کمیشن نے صدر کو خط لکھا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ الیکشن کمیشن نے صدر کو وہ صورتحال نہیں بتائی جو عدالت کو اب بتا رہے ہیں، صدر کو صرف تاریخ دینے کا لکھا گیا تھا، سپریم کورٹ الیکشن کمیشن کو بااختیار بنانے کی کوشش کرتا ہے۔

چیف جسٹس نے سوال اٹھاتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن نے صدر کو ایک دن انتخابات کی ایڈوانس کیوں نہیں دی، صدر مملکت کو 218/3 کا بتایا نہ ہی 1970 کے انتخابات کا، الیکشن کمیشن نے صدر کو نہ سیکیورٹی کا بتایا نہ فنڈز کا، زمینی حالات کا ذکرکیے بغیرکہا جارہا 218/3 کے تحت مزید اختیارات دئیے جائیں، آئین اختیار دیتا ہے تو استعمال کرنے سے پہلے آنکھیں اور ذہن بھی کھلا رکھیں۔

وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ تلور کے شکار والے کیس میں بھی عدالت نے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کی، 16 ہزار ملازمین کے کیس میں نظرثانی خارج ہوئی، عدالت نے 184/3 اور187 کا اختیار استعمال کیا، ججز کیس میں بھی عدالت نے اپنا فیصلہ خود تبدیل کیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالت نے ججز کیس میں سوموٹو نظرثانی کی تھی۔

عدالت نے کیس کی سماعت ایک با پھر کل تک ملتوی کردی۔

گزشتہ سماعت میں چیف جسٹس کے ریمارکس

گزشتہ سماعت میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے وفاقی اور نگراں حکومت کے جوابات کو سراہتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ اس بار الیکشن کمیشن اور حکومت اس کاروائی کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں، ماضی میں حکومت بینچ پر اعتراض کرتی رہی ہے، کبھی فل کورٹ کبھی چار تین کا نکتہ اٹھایا گیا۔

چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے استفسار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ جو باتیں اب کررہے ہیں پہلے کیوں نہیں کیں، کیا ان باتوں کو پہلے نہ کرنے کی وجہ کچھ اور تھی، کیا کسی اور ادارے نے اب الیکشن کمیشن کو یہ مؤقف اپنانے پر مجبور کیا ہے۔

Supreme Court of Pakistan

Punjab KP Election Case