سپریم کورٹ کی دوبارہ مذاکرات کی تجویز، سماعت 23 مئی تک ملتوی
سپریم کورٹ کے حکم پر پنجاب میں انتخابات کے حکم سے متعلق الیکشن کمیشن کی نظرثانی درخواست پر سماعت 23 مئی تک ملتوی کردی گئی۔
سپریم کورٹ میں پنجاب کے پی انتخابات کیس کی سماعت چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی، بینچ میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب بھی شامل ہیں۔
سپریم کورٹ نے فریقین کو نوٹسز جاری کردئیے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی نوٹسز جاری کریں گے۔
پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے عدالت میں مؤقف پیش کیا کہ نظرثانی کا دائرہ اختیار محدود ہوتا ہے، الیکشن کمیشن نہ سیاسی جماعت ہے نہ حکومت۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ درخواست قابل سماعت ہونے پر الیکشن کمیشن کا مؤقف سننا چاہتے ہیں۔
وکیل علی ظفر نے مؤقف پیش کیا کہ آئین کا قتل ہوچکا ہے، نگران حکومتیں غیرآئینی ہیں، 14 مئی انتخابات کے حکم پر کوئی حکم امتناع جاری نہیں ہوا، عدالتی حکومت پر عملدرآمد کرایا جائے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالت نے جو حکم دیا ہے وہ حتمی ہے۔
سیکرٹری سپریم کورٹ بار عدالت میں پیش ہوئے اور عدالت میں مؤقف دیا کہ بارسپریم کورٹ کے ساتھ کھڑی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بعض نکات غور طلب ہیں ان پر فیصلہ کریں گے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے عدالت میں مؤقف پیش کیا کہ نظرثانی کا دائرہ محدود نہیں ہوتا، آئینی مقدمات میں دائرہ اختیار محدود نہیں ہوسکتا۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ مدنظر رکھیں گے کہ نظرثانی میں نئے نکات نہیں اٹھائے جاسکتے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہمارے پاس کل اہم کیس کی سماعت ہے، کیوں نہ کیس اگلے ہفتے منگل تک ملتوی کردیں۔
پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ آئین پرعملدرآمد سب کا فرض ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ عدالت نے آئین کے ساتھ حالات کو بھی دیکھنا ہے، اتنا درجہ حرارت ہوگا تو انتخابی نتائج کون تسلیم کرے گا، اگر امن ہوگا تو معاملات چلیں گے، باہر جا کر دیکھیں ملکی اداروں اوراثاثوں کوجلایا جارہا ہے، انسٹالیشنز کو آگ لگائی جا رہی ہے، چار پانچ دنوں سے جو ہو رہا ہے اسے بھی دیکھیں گے، انتخابات جمہوریت کی بنیاد ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ لوگوں کی زندگیوں کا تحفظ ضروری ہے، ایگزیکٹو اور اپوزیشن اخلاقیات کا اعلی معیار برقرار رکھیں، آئین پر عملدرآمد لازمی ہے، اس ماحول میں آئین پرعملدرآمد کیسے کرایا جائے، الیکشن کمیشن نے اچھے نکات اٹھائے۔
چیف جسٹس نے وکیل پی ٹی آئی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو چاہیے کہ مذاکرات کے عمل کو دوبارہ دیکھیں، ہمیں سیاست کا نہیں معلوم اور نہ جانا چاہتے ہیں۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ اس کیس میں جو دلائل دوں گا وہ سیاسی نہیں ہوں گے۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کو ہائی مورال گراؤنڈ پیدا کرنا ہوگا۔
وکیل علی ظفر نے مؤقف پیش کیا کہ گرفتاریاں جاری رہیں، تاریخ پر اتفاق نہیں ہو سکا تھا۔ عمران خان کوجس انداز سے گرفتار کیا گیا اس سے خوف پھیلا۔ چیف جسٹس نے جوابی ریمارکس دیئے کہ عمران خان کو ریلیف مل چکا ہے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب اس وقت بال آپ کی کورٹ میں ہے، آپ مذاکرات کیوں نہیں کرتے؟، ہم یہاں عوام کے حقوق کے تحفظ کے لیے بیٹھے ہیں، عوام کے حقوق کا تحفظ ہوگا تولوگ خوش ہوں گے، میں نے کل دیکھا موٹروے خالی پڑے ہیں، معیشت کی حالت خراب ہورہی ہے۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ فریقین سمجھوتے کے نزدیک تھے مزید وقت ملنا چاہیے تھا، اپوزیشن کے تمام ارکان سنجیدہ ممبران تھے، اگر مزید وقت مل جاتا تو نتیجہ بہتر ہوتا، لیکن پچھلے ہفتے جوکچھ ہوا وہ نہیں ہوناچاہیے تھا۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو ریمارکس میں کہا کہ آپ مذاکرات دوبارہ شروع کریں، موجودہ صورتحال کومزید خراب نہ کریں، آپ کی سب سے بڑی دشمن آپ کی زبان ہوتی ہے، ہم سیاسی معاملات بارے کچھ نہیں کہیں گے، ہم نے دیکھنا ہے آئین کا تحفظ ہوا یا نہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 90 دن میں انتخابات بنیادی معاملہ ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات ہی بنیادی چیز ہیں، بال اب حکومت اور اپوزیشن کے کورٹ میں ہے، اگلے ہفتے تک تیاری کرکے آئیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ امن و امان کو برقرار رکھنے میں حصہ ڈالیں، مشکل وقت میں صبر کرنا ہوتا ہے نہ کہ جھگڑا، لوگ آج دیواریں پھلانگ رہے تھے حکومت ناکام نظر آئی، باہر کے حالات دیکھ رہے ہیں، سماعت جلدی نہیں رکھنا چاہتے۔
عدالت نے کیس کی سماعت 23 مئی تک ملتوی کردی۔ عدالت نے وفاقی حکومت ، پی ٹی آئی، ن لیگ، پیپلز پارٹی کے علاوہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کے گورنرز کو بھی نوٹس جاری کردیئے، جب کہ حکومت اورپی ٹی آئی کومذاکرات بحال کرنےکی تجویز دیتے ہوئے منگل تک اٹارنی جنرل سے بھی جواب طلب کرلیا۔
الیکشن کمیشن کی درخواست
4 اپریل کو سپریم کورٹ نے 14مئی کو پنجاب میں انتخابات کرانےکا حکم دیا تھا، الیکشن کمیشن کی جانب سے پنجاب میں 14 مئی کو الیکشن کی تاریخ واپس لینے کیلئے نظرثانی درخواست دائرکی گئی تھی۔
نظرثانی درخواست میں الیکشن کمیشن کی جانب سے پنجاب الیکشن کی تاریخ واپس لینے کی استدعا کرتے ہوئے موقف اختیار کیا گیا تھا کہ سپریم کورٹ کے پاس انتخابات کی تارہخ دینے کا اختیار نہیں، یہ حکم دے کرعدالت عظمیٰ نے اپنے اختیارات سے تجاوزکیا۔عدالت قانون کی تشریح تو کر سکتی ہے مگراُسے دوبارہ لکھ نہیں سکتی۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے مزید کہا گیا تھا کہ حکومت نے انہیں پنجاب میں الیکشن کیلئے سیکیورٹی اورمطلوبہ فنڈزفراہم نہیں کیے گئے، دو صوبوں (پنجاب اور خیبرپختونخوا) میں پہلے انتخابات کے انعقاد کے بعد قومی اسمبلی کے انتخابات شفاف نہیں ہوں گے۔
الیکشن کمیشن نے نظرثانی درخواست میں یہ بھی کہا ہے کہ سپریم کورٹ نے فیصلے میں حاجی سیف اللہ کیس میں آرٹیکل 254 کو پری میچوراستعمال کیا، قطع نظراس کے کہ اس حوالے سے 11 رکنی لارجر بینچ کا فیصلہ موجود ہے جس میں الیکشن مقررہ وقت سے 4 ماہ آگےبڑھانے کی اجازت دی گئی تھی۔
Comments are closed on this story.