Aaj News

اتوار, نومبر 03, 2024  
01 Jumada Al-Awwal 1446  

عدالتی اصلاحات بل کیس: سپریم کورٹ کا پارلیمانی کارروائی کا ریکارڈ کل تک جمع کرانے کا حکم

حکومت کی فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا اچھے الفاظ میں نہیں، چیف جسٹس
اپ ڈیٹ 08 مئ 2023 02:54pm
سپریم کورٹ آف پاکستان
سپریم کورٹ آف پاکستان

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف کیس کی سماعت 3 ہفتے کے لئے ملتوی کردی گئی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ حکومت کی فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا اچھے الفاظ میں نہیں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 8 رکنی لارجر بینچ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف کیس کی سماعت کی، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر نقوی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید بھی بینچ کا حصہ ہیں۔

عدالت عظمیٰ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر تاحکم ثانی عمل درآمد روک رکھا ہے۔ اورعدالت نے تمام فریقین سے بل پر تحریری رائے مانگی تھی۔

عدالت نے سپریم کورٹ رولز اینڈ پروسیجر بل پر پارلیمانی کارروائی کا ریکارڈ طلب کر رکھا تھا، جب کہ قاٸمہ کمیٹی میں ہونے والی بحث کا ریکارڈ بھی عدالت عظمی نے پیش کرنے کی ہدایت کر رکھی ہے۔

دوسری جانب ذرائع کا کہنا ہے کہ ‎قومی اسمبلی سیکرٹریٹ نے اٹارنی جنرل آفس کو فوری ریکارڈ دینے سے انکار کردیا ہے۔ اور مؤقف اپنایا ہے کہ سپریم کورٹ کو ریکارڈ دینے کا فیصلہ خصوصی کمیٹی کی ‎سفارشات پر کیا جائے گا۔

دوسری جانب ذرائع نے بتایا ہے کہ اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے معاملہ خصوصی کمیٹی کو بھجوا دیا ہے۔ اب 10رکنی خصوصی کمیٹی ہی سپریم کورٹ کو ریکارڈ دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کرے گی۔

وفاقی حکومت نے کیس کے لیے فل کورٹ تشکیل دینے کے لیے متفرق درخواست بھی داٸر کر رکھی ہے۔ جب کہ اپنے جواب میں ایکٹ کے خلاف درخواستیں مسترد کرنے کی استدعا بھی کی ہے۔

وفاقی حکومت نے عدالت میں جمع کروائے اپنے جواب میں مؤقف اختیار کیا کہ پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیار پر کوٸی قدغن نہیں، قانون سے عدلیہ کے اختیار میں کمی نہیں ہوگی، فیٸر ٹراٸل کے لیے اپیل کا حق ضروری ہے۔

اٹارنی جنرل کے دلائل

تحریک انصاف کی جانب سے عدالت میں فواد چوہدری اور حکومت کی جانب اٹارنی جنرل پیش ہوئے۔

اٹارنی جنرل منصوراعوان نے عدالت میں مؤقف پیش کیا کہ فل کورٹ تشکیل دینے کے لیے درخواست دائر کی ہے۔ جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آپ کی درخواست پر تو ابھی نمبر بھی نہیں لگا۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے دستاویزات جمع کروا دی ہیں۔ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ توقع ہے کل تک پارلیمانی کاروائی کا ریکارڈ مل جائے گا، اسپیکر آفس سے باضابطہ اور غیر رسمی طور پر رابطہ کیا ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ قانون میں بینچوں کی تشکیل اور اپیلوں کا معاملہ طے ہے، عدالتی اصلاحات بل میں وکیل کی تبدیلی کا بھی حق دیا گیا، سپریم کورٹ کے رولز فل کورٹ نے تشکیل دیئے تھے، رولز میں ترمیم بھی فل کورٹ ہی کرسکتی ہے، قانون براہ راست ان ججز پر لاگو ہو گا جو مقدمہ نہیں سن رہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ سوال قانون سازی کے اختیارات کا ہے، رولز میں ترمیم کا نہیں، قانون سازی کے اختیار کے مقدمات مختلف بینچز سنتے رہتے ہیں۔

جسٹس مظاہرنقوی نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا ماضی میں ایسی قانون سازی ہوئی ہے۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ 1992 تک رولز بنانے کے لئے صدر کی اجازت درکار تھی۔ جسٹس مظاہر نے دوبارہ استفسار کیا کہ آرٹیکل91 کے ہوتے ہوئے یہ قانون سازی کیسے ہو سکتی ہے۔

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ صدر کی اجازت کا اختیار واپس لے لیا گیا تھا، رولز آئین وقانون کے مطابق بنانے کی شق برقرار رکھی گئی، ماضی میں کبھی ایسا مقدمہ نہیں آیا اس لیے فل کورٹ تشکیل دیا جائے۔

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ کئی مقدمات اپنی نوعیت کے پہلے ہوتے ہیں، سپریم کورٹ کا کوئی بھی بینچ کوئی بھی مقدمہ سن سکتا ہے، کیا حکومت فل کورٹ کا فائدہ اٹھانا چاہتی ہے، کیا حکومت چاہتی ہے عدالت کی اندرونی بحث باہر آئے، ہر مقدمہ اہم ہوتا ہے یہ یقین کیسے ہو گا کہ کون سا کیس فل کورٹ سنے، کیا عدلیہ کی آزادی کا ہر مقدمہ فل کورٹ نے سنا تھا۔

اٹارنی جنرل نے مؤقف پیش کیا کہ افتخار چوہدری کیس سمیت کئی مقدمات فل کورٹ نے سنے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 1996سے عدلیہ کی آزادی کے مقدمات سنے جارہے ہیں، بظاہر یہ آپ کا مقدمہ نہیں لگتا کہ فل کورٹ بنایا جائے۔

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ کیا آپ کہنا چاہ رہے عوام کا اعتماد فل کورٹ پر ہے، عدالت درخواست گزار کی خواہش پر اپنی کاروائی کیسے ریگولیٹ کرے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ درست ہےکہ عدلیہ کی آزادی کےتمام مقدمات فل کورٹ نےنہیں سنے۔ جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیئے کہ افتخارچوہدری کیس مختلف نوعیت کا تھا۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ رولز بنانے کا اختیار فل کورٹ کو انتظامی امور میں ہے، اگر تین رکنی بینچ کے سامنے رولز کی تشریح کا مقدمہ آجائے تو کیا وہ بھی فل کورٹ کو سننا چاہیے، فل کورٹ اپنے رولز بنا چکی ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ موجودہ کیس میں قانونی سازی کا اختیار چیلنج ہے۔

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ آپ کی منطق سمجھ سے باہر ہے، فل کورٹ کا فیصلہ اچھا اور تین رکنی بینچ کا برا ہوگا۔

جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیئے کہ کیا آپ کی منتق یہ ہے کہ رولز فل کورٹ نے بنائے تو تشریح بھی وہی کرے۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ فل کورٹ کا جواب خود پارلیمنٹ نے اپنے بنائے گئے قانون میں دے دیا ہے، عدالتی اصلاحات بل کے مطابق پانچ رکنی بینچ آئین کی تشریح کا مقدمہ سنے گا، یا تو آپ کہیں کہ پارلیمنٹ نے قانون غلط بنایا ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت نے قانون پرعمل درآمد سے روک رکھا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ اگر حکم امتناع نہ ہوتا تو فل کورٹ کی استدعا کہاں جاتی، پارلیمنت کہتی ہے پانچ رکنی بینچ ہو، اٹارنی جنرل کہتے ہے فل کورٹ ہو، لگتا ہے حکومت کی گنتی کمزور پڑھ گئی ہے کہ یہاں کتنے ججز بیٹھے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ فل کورٹ کی استدعا مناسب لگنے پر کی جاسکتی ہے، قانون میں کم سے کم پانچ ججز کا لکھا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمنٹ پانچ ججز سے مطمئن ہے تو اٹارنی جنرل کیوں نہیں۔ جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس میں کہا کہ قوانین کے خلاف درخواستیں عدالت معمول میں سنتی ہے، ہائیکورٹ بھی قوانین کے خلاف درخواستیں سنتی ہیں، کیا ہائیکورٹ میں بھی فل کورٹ کی استدعا کی گئی۔

جسٹس مظاہرعلی اکبر نقوی نے ریمارکس دیئے کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا مقدمہ نہیں ہے، 2012 میں بھی اس نوعیت کا مقدمہ سنا جاچکا ہے۔ جسٹس منیب نے ریمارکس دیئے کہ کیا لاہور ہائی کورٹ میں 60 اور سندھ ہائیکورٹ میں 40 ججز سماعت کریں گے، فل کورٹ کی درخواست میں لکھا ہے کہ بینچ حکم امتناع میں اپنا ذہن دے چکا ہے۔

اٹارنی جنرل نے مؤقف اپنایا کہ عدالت اصلاحات بل ہائیکورٹ میں چیلنج نہیں، اس پر بات نہیں کروں گا۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تو ہائیکورٹس فل کورٹ بنانے کی پابند ہوں گی۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ اگر صوبائی اسمبلی بھی اس نوعیت کا قانون بنادے تو کیا پوری ہائیکورٹ مقدمہ سنے گی۔ جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کیا تمام اٹھ ججز فیصلہ کریں گے کہ فل کورٹ بنے گی، فل کورٹ تشکیل دینے کی درخواست قابل سماعت ہونے پر بھی سوال ہے، کیا ایسی درخواست انتظامی سطح پر دی جاسکتی ہے۔

جسٹس شاہد وحید نے استفسار کیا کہ کیا بینچ چیف جسٹس کو فل کورٹ بنانے کا حکم دے سکتا ہے۔ اٹارنی جنرل نے مؤقف پیش کیا کہ ججز چیف جسٹس سے فل کورٹ بنانے کی گزارش کرسکتے ہیں۔ جسٹس شاہد وحید نے ریمارکس دیئے کہ درخواست میں اپ چیف جسٹس کو حکم دینے کی استدعا کررہے ہیں، کیا عدالت چیف جسٹس کو حکم دے سکتی ہے۔

جسٹس مظاہرعلی نقوی نے ریمارکس دیئے کہ فل کورٹ کی تشکیل کی درخواست میں کی گئی استدعا پر تحفظات ہیں۔

جسٹس شاہد وحید نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ ایسی استدعا پر عدالت کس قسم کا حکم دے سکتی ہے۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ماضی میں ایسی درخواست پر فل کورٹ تشکیل دی جاتی رہی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ درخواست میں کی گئی استدعا اچھےالفاظ میں نہیں۔

اٹارنی جنرل نے مؤقف دیا کہ ذوالفقاربھٹو نے پھانسی کے مقدمے میں بینچ پر اعتراض کیا تھا، جج پر اعتراض ہوا اور 9 رکنی فل کورٹ نے مقدمہ سنا۔ جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیئے کہ جس فیصلے کا حوالہ دے رہے ہیں اس میں وجوہات بھی دی گئیں۔

اٹارنی جنرل نے مؤقف پیش کیا کہ اس وقت کے چیف جسٹس انورالحق نے اعتراض مسترد کیا، 9 رکنی فل کورٹ میں چیف جسٹس خود بھی شامل تھے، موجودہ درخواست میں کسی جج یا چیف جسٹس پر اعتراض نہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اعتراض ہو تو فیصلہ جج نے کرنا ہوتا ہے کہ وہ مقدمہ سنے یا نہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ فل کورٹ تشکیل دینے کے حوالے سے اپنی معروضات پیش کرچکے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ مستقبل کے لیے تعین کرنا ہے کہ بینچ کن حالات میں فل کورٹ تشکیل دینے کا کہہ سکتا ہے، عدالت کو اس حوالے سے مزید معاونت چاہیے۔

ن لیگ کے وکیل بیرسٹرصلاح الدین کے دلائل

ن لیگ کے وکیل بیرسٹرصلاح الدین نے کہا کہ سپریم کورٹ کے رولزچیف جسٹس کے بینچ بنانے کے اختیارکو اسٹریکچر نہیں کرتے۔

عدالت نے ریمارکس دیئے کہ جو قانون پارلیمنٹ نے بنایا ہے اس میں5 رکنی بینچ کی بات کی گئی، ن لیگ فل کورٹ کی استدعا کیسے کرسکتی ہے۔

بیرسٹرصلاح الدین نے مؤقف پیش کیا کہ چیف جسٹس بینچز کی تشکیل کا حکم دیتے ہیں۔

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ روزانہ کی بنیاد پرمقدمات آتے ہیں، سائلین کے اعتراضات پرعدالت فیصلہ کرتی ہے۔ بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ جانبداری پرمبنی کئی فیصلے موجود ہیں۔ جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ سائلین عدالت میں پیش ہوکرمؤقف پیش کرتے ہیں۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ افتخارچوہدری کیس میں جج کومعزول کردیا گیا تھا، وہ ماسٹرآف روسٹر کا اختیار استعمال نہیں کر سکتے تھے، ن لیگ پارلیمنٹ کی سب سے بڑی جماعت ہے۔

عدالت نے پارلیمانی کارروائی کا ریکارڈ کل تک جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف کیس کی سماعت تین ہفتےکیلئے ملتوی کردی۔

عدالت نے گزشتہ سماعت میں فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا فی الوقت مسترد کردی تھی۔

Supreme Court

اسلام آباد

justice umer ata bandiyal

Supreme court practice and procedures bill

Politics May 8 2023