منی پور کے عوام تشدد سے بچنے کیلئے ریاست سے فرار اختیار کرنے لگے
منی پور کے جیریبام ضلع کے رہائشی ایک 43 سالہ ایل موانگپو کا تعلق کوکی قبیلے سے ہے اور وہ گزشتہ دو دنوں سے گھر کے اندر بند ہیں۔ موانگپو شمال مشرقی ریاست میں نسلی تشدد کی ان آوازوں سے خوفزدہ ہیں جو ان کے دور دراز واقع گاؤں کے قریب آتی جارہی ہیں۔
بھارتی خبر رساں ادرے ہندوستان ٹائمز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جمعرات کی رات 10 بجے گھر پر حملہ کیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ ’یہ سمجھنے میں چند منٹ لگے کہ ہم پر حملہ کیا جا رہا ہے۔ ہجوم پتھراؤ کر رہا تھا، ہمارے گھروں کو جلانے کی کوشش کر رہا تھا، اور ہمیں دھمکیاں دے رہا تھا۔ وہ نعرے لگاتے رہے کہ یہ ہماری آخری جنگ ہے۔‘
طلوع آفتاب تک موانگپو نے اپنا ذہن بنا لیا تھا۔
دوپہر کے وقت، وہ اپنے اجداد کے گاؤں سے بھاگ نکلے، اور آسام کے کاچھر ضلع میں جا پہنچے۔
موانگپو منی پور کے جیریبام اور آس پاس کے علاقوں کے کم از کم 1100 ان باشندوں میں سے ایک ہیں جو ریاستی سرحدوں کو عبور کر کے ہمسایہ آسام میں داخل ہوئے اور منی پور میں جاری دنگوں سے فرار ہوئے۔
یہ جھڑپیں بدھ کو اس وقت شروع ہوئیں جب قبائلی کوکی گروپس نے ریاست کے ریزرویشن میٹرکس میں مجوزہ تبدیلی کے خلاف مظاہرے شروع کئے، جس میں اکثریتی مییی کمیونٹی کو شیڈول ٹرائب (ST) کا درجہ دیا گیا ہے۔ جس کے بعد پرتشدد کارروائیوں نے تیزی سے ریاست کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ چوبیس سالہ واہسی کھونگسائی جو کہ جیریبام سے بھی ہیں، نے بتایا کہ ان کے علاقے میں میتی اور کوکی قبائل کے نمائندوں نے جمعرات کو ایک امن میٹنگ کی اور کہا کہ دونوں فریق ایک دوسرے کی حفاظت کریں گے۔
’لیکن جب رات پڑی تو ہمیں معلوم ہوا کہ یہ ایک جعلی معاہدہ تھا۔ انہوں نے ہمارے گھروں کو جلانے کی کوشش کی۔ ہمارے علاقے کے مردوں نے ہماری حفاظت کے لیے اپنی جانوں کو خطرے میں ڈالا۔‘
کھونگسائی نے کہا کہ فوجی اہلکار موقع پر پہنچ گئے لیکن مقامی باشندوں نے وہاں سے ہجرت کا فیصلہ کیا، کیونکہ فوجیوں کے جانے کے بعد تشدد کے بڑھنے کا خدشہ تھا۔
انہوں نے کہا کہ جب تک فوج موجود ہے ہم محفوظ ہیں، لیکن وہ ہر وقت ہماری حفاظت نہیں کر سکتے۔
’جمعرات کی آدھی رات کو، ہم نے آسام کی سرحد کی طرف چلنے کا فیصلہ کیا، اور بچوں اور بوڑھے پڑوسیوں کے ساتھ جیری ندی کو عبور کیا۔‘
چورا چند پور ایک ضلع ہے جہاں کوکی اکثریت میں ہیں، وہاں کے رہائشیوں نے بتایا کہ میتی کے علاقوں کو بڑے پیمانے پر منظم حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔
منی پور میں شیڈولڈ ٹرائب ڈیمانڈ کمیٹی کے مشیر یامبیم لابا نے کہا کہ ’بدھ کے روز، ہجوم نے دو گاؤں جلا دیے۔ ایک ہزار سے زیادہ رہائشیوں کو فوج کے اہلکاروں نے بچایا ہے اور وہ اب موئرنگ میں پناہ لے رہے ہیں۔‘
میتی کمیونٹی کے ایک اور رکن، 43 سالہ استاد جوئے کمار ہیسنام نے کہا کہ وہ میزورام میں موجود اپنی رہائش گاہ سے منی پور جانا چاہتے تھے کیونکہ انہیں جوابی حملوں کا خدشہ تھا۔
انہوں نے مزید کہا، ’ہم نے آسام میں پناہ لی ہے اور دوبارہ منی پور میں داخل ہونے کی کوشش کریں گے۔‘
کوکی قبیلے سے تعلق رکھنے والی ایک 29 سالہ خاتون کے اجداد میزورام میں تھے، لیکن وہ اپنی 65 سالہ ماں اور 26 سالہ بھائی کے ساتھ وادی امپھال میں پلی بڑھیں۔
جمعرات کی صبح، انہوں نے 300 لوگوں پر مشتمل ایک بڑے ہجوم کو گلی میں لوٹ مار کرتے اور گھروں جلاتے ہوئے دیکھا۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم صرف اپنے اہم دستاویزات کو ہی چھیننے میں کامیاب رہے۔‘
ہجوم سے بچنے کے لیے اس فیملی نے پہلے پڑوسی کے گھر میں پناہ لی۔
’اس کمرے میں ہم 17 لوگ تھے، اور ہم نے کمرے کے گیٹ کو باہر سے بند کر دیا اور تمام دروازے بھی بند کر دیے۔ لیکن ہجوم کو معلوم تھا کہ ہم اندر ہیں، اور ہمیں دروازے سے باہر آنے کا حکم دیا، اور کہا کہ اگر ہم نے تعمیل نہ کی تو وہ ہمارے ساتھ گھر کو آگ لگا دیں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ، ’ہم نے مدد کے لیے پولیس کو بلایا لیکن وہ نہیں پہنچے، اور ہم صرف وہاں کھڑے ہو کر دیکھتے رہے۔‘
امپھال ہوائی اڈہ 10 منٹ کی دوری پر تھا اور مذکورہ خاتون نے ریاست سے باہر جانے کے لیے فلائٹ ٹکٹ بک کرائے تھے۔
لیکن جب انہوں نے تشدد کی ویڈیو بنانے کی کوشش کی تو اچانک ان کا فون چھین لیا گیا۔
’میں نے ان سے درخواست کی کہ وہ فون واپس کردیں کیونکہ میرے تمام PNR نمبر فون میں تھے۔ ایک بوڑھی عورت جو ہجوم کا حصہ تھی اس نے فون واپس کر دیا۔‘
Comments are closed on this story.