Aaj News

پیر, دسمبر 23, 2024  
20 Jumada Al-Akhirah 1446  

ملک میں ایک ہی دن الیکشن کا کیس: سیاسی مسائل کو سیاسی قیادت حل کرے

حکومتی اتحاد نے پی ٹی آئی سے مذاکرات پرجواب جمع کروادیا
تصویر: اے ایف پی/ فائل
تصویر: اے ایف پی/ فائل

ملک بھرمیں ایک ہی دن انتخابات کروانے کے کیس میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیے ہیں کہ مذاکرات ناکام ہوئے توعدالت فیصلے کو لےکر بیٹھی نہیں رہےگی،عدالت نے فیصلے پر آئین کے مطابق عمل کرنا ہے۔ حکومت عدالتی احکامات پرعملدرآمدکرنےکی پابندہے، عدالت تحمل کا مظاہرہ کررہی ہے تو اسے کمزوری نہ سمجھا جائے۔ حکومت قانون میں نہیں سیاست میں دلچسپی دکھا رہی ہے۔

یف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی،دیگر دو ارکان میں جسٹس اعجاز الاحسن اورجسٹس منیب اختر شامل تھے۔

سماعت سے قبل حکومتی اتحاد نے پی ٹی آئی سے مذاکرات کے معاملے پر جواب سپریم کورٹ میں جمع کروایا ۔

سماعت کے آغاز پرپیپلز پارٹی کے وکیل فاروق نائیک نے آج صبح پی ٹی آئی سے مذاکرات پر حکومتی اتحاد کی جانب سے جمع کروایا گیاپڑھ کر سنایا۔

فاروق نائیک نے بتایاکہ مذاکرات میں چیئرمین سینیٹ نےسہولت کار کا کردار ادا کیا، دونوں فریقین کےنامزدممبران نے مذاکرات مین شرکت کی، مذاکراتی کمیٹی نے پانچ اجلاس کیے۔ مذاکرات میں تاریخ اورمہینہ ابھی طے ہونا ہیں ۔ملکی معیشت2017سے بہترپوزیشن میں نہیں، پاورسیکٹر میں سرکولرڈیٹ کا اضافہ ہوا جبکہ اسٹاک ایکسچینج کی حالت بھی بہتر نہیں ہے۔ 2022 کے سیلاب نے کئی لاکھ ڈالرز کا نقصان کیا اور موجودہ معاشی صورتحال کو پی ٹی آئی بھی تسلیم کرتی ہے۔

فاروق ایچ نائیک نے عدالت کو بتایا کہ مذاکرات میں ایک ہی دن الیکشن کرانے پراتفاق ہواہے تاہم اسمبلی تحلیل کرنے کی تاریخ پر اتفاق نہیں ہوسکا لیکن حکومت ملکی مفاد میں مذاکرات کا عمل بحال کرنے پر تیار ہے۔

سیاسی معاملہ عدالت سیاسی جماعتوں پرچھوڑتی ہے

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ رپورٹ وزیر خزانہ کے دستخط سے جمع ہوئی ہے، سیاسی مساٸل کو سیاسی قیادت حل کرے۔ عدالت میں ایشو آئینی ہے سیاسی نہیں اور سیاسی معاملہ عدالت سیاسی جماعتوں پر چھوڑتی ہے۔ حکومتی جواب میں آئی ایم ایف معاہدہ پر زور دیاگیا، آئی ایم ایف معاہدہ اورٹریڈپالیسی کی منظوری کیوں ضروری ہے؟

اس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ بجٹ صرف قومی اسمبلی پاس ہی کرسکتی ہے اور اگرصوبائی حکومتیں ختم نہ ہوتی تومسئلہ نہ ہوتا۔ بجٹ کیلئےآئی ایم ایف کاقرض ملنا ضروری ہے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ آئی ایم ایف قرضہ ذخائرمیں استعمال ہوگا یا قرضوں کی ادائیگی میں؟اس ہر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ یہ جواب وزیر خزانہ دے سکتے ہیں۔

چیف جسٹس نے اپنمے ریمارکس میں مزید کہا کہ کیا بجٹ آئی ایم ایف کے پیکج کے تحت بنتا ہے؟ اخبارات کے مطابق دوست ممالک بھی قرضہ آئی ایم ایف پیکج کے بعد دیں گے۔ کیا پی ٹی آئی نے بجٹ کی اہمیت کو قبول کیا یا رد کیا؟۔

غصے میں درست فیصلے نہیں ہوتے، اسی لیے ہم غصہ نہیں کرتے

انہوں نے واضح کیا کہ آئین میں انتخابات کیلئے 90 دن کی حد سے کوئی انکار نہیں کرسکتا اورعدالت اس حوالے سے اپنا فیصلہ دے چکی ہے۔ یہ قومی اور عوامی اہمیت کے ساتھ آئین پر عملداری کا معاملہ ہے۔ کل رات ٹی وی پر دونوں فریقین کا مؤقف سنا، اگر مذاکرات ناکام ہوئےتو عدالت فیصلے کو لیکر بیٹھی نہیں رہے گی ، عدالت نے اپنے فیصلے پر آئین کے مطابق عمل کرنا ہے۔ عدالت صرف اپنا فرض ادا کرنا چاہتی ہے۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ کا مزید کہنا تھا کہ کہا گیا ماضی میں عدالت نے آئین کا احترام نہیں کیا اور راستہ نکالا۔ عدالت نے احترام میں کسی بات کا جواب نہیں دیا۔غصے میں فیصلے درست نہیں ہوتے اس لیے ہم غصہ نہیں کرتے۔ ہماری اور اسمبلی میں ہونے والی گفتگو جائزہ لیں،جو بات یہاں ہورہی ہے اس کا لیول دیکھیں۔

اس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ عدالت کو90 روز میں الیکشن کے معاملے کا جائزہ لینا ہوگا،انتخابات کے لیے نگران حکومتوں کا ہونا ضروری ہے۔ منتخب حکومتوں کے ہوتے ہوئے الیکشن کوئی قبول نہیں کرے گا۔ یہ نظریہ ضرورت نہیں ہے۔

حکومت کی دلچسپی نہیں تھی،آپ چار تین کی بحث میں لگے رہے

چیف جسٹس نے کہا کہ23 فروری کا معاملہ شروع ہوا تو آپ نے انگلیاں اٹھائیں۔ یہ تمام نکات اس وقت نہیں اٹھائے گئے اور آئینی کارروائی کو حکومت نے سنجیدہ نہیں لیا۔

جواب میں فاروق ایچ نائیک بولے، ’ہمیں تو عدالت نے سنا ہی نہیں تھا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ دوسرے راؤنڈ میں آپ نے بائیکاٹ کیا تھا۔ آپ نے کبھی فیصلہ حاصل کرنے کی کوشش ہی نہیں کی، چار تین کی بحث میں لگے رہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے اسمبلیاں بحال کرنے کا نقطہ اٹھایا تھا، حکومت کی دلچسپی ہی نہیں تھی۔ آج بھی کوئی فیصلے یا قانون کی بات ہی نہیں کر رہا۔

عدالت تحمل کا مظاہرہ کررہی ہے، کمزوری نہ سمجھا جائے

چیف جسٹس نے اتحادی حکومت پر اظہار برہمی دکھاتے ہوئے کہا کہ سنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ حکومت نے ابھی تک نظرثانی اپیل تک دائر نہیں کی۔ حکومت قانون میں نہیں سیاست میں دلچسپی دکھا رہی ہے پہلے بھی کہا تھا سیاست عدالتی کارروائی میں گھس چکی ہے، ہم نے اللہ کے سامنے آئین کے دفاع کا حلف لیا ہے۔ معاشی و سیاسی، معاشرتی، سیکیورٹی بحرانوں کے ساتھ آئینی بحران بھی ہے۔ اگرسیاستدانوں کواپنےحال پر چھوڑدیں توآئین کہاں جائےگا،کل ہم نے 6 فوجی جوان کھوئے،ملک کی خاطر بہت بڑی قربانیاں دی جارہی ہیں۔معاملہ سیاسی جماعتوں پر چھوڑ دیں تو کیا قانون پر عملدرآمد نہ کروائیں۔

فاروق ایچ نائیک نے تصحیح کرتے ہوئے کہا کہ 6 نہیں 8جوان شہید ہوئےاوراساتذہ کو بھی مارا گیا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت اور اپوزیشن کو سنجیدہ ہونا ہوگا، کیا عدالت عوامی مفاد سے آنکھیں چرالے ؟ سپریم صرف اللہ کی ذات ہے،حکومت عدالتی احکامات پرعملدرآمد کرنےکی پابندہے۔ عدالت تحمل مظاہرہ کررہی ہے،کمزوری نہ سمجھا جائے، ہم قانون پر عملدرآمد کیلئے قربانیوں سے دریغ نہیں کریں گے، جوانوں نےقربانیاں دی ہیں ہم بھی قربانیاں دینے کیلئے تیارہیں۔

تحریک انصاف نے ایک دن الیکشن کروانے پر اتفاق کرتے ہوئے شرط رکھی

پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹرعلی ظفر کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف نے ایک دن الیکشن کروانے پر اتفاق کرتے ہوئے شرط رکھی کہ اسمبلیاں 14 مئی تک تحلیل کی جائیں۔ دوسری شرط تھی کہ جولائی کے دوسرے ہفتے میں الیکشن کروائے جائیں۔ تیسری شرط تھی کہ انتخابات میں تاخیر کو آئینی ترمیم کے ذریعے قانونی شکل دی جائے۔ تحریک انصاف نے 14 مٸی کو انتخابات کے حکم پرعملدرآمد کی استدعا کر دی ہے۔ عدالت اپنے حکم پرعملدرآمد کرواتے ہوئے فیصلہ نمٹا دے۔

تحریک انصاف کے وکیل نے مزید کہا کہ حکومت نے 14 مٸی انتخابات کے فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست داٸر نہیں کی۔ فاروق ناٸیک نے جو نکات اٹھائے ہیں وہ غیر متعلقہ ہیں۔ آٸین سے باہر نہیں جایا جا سکتا۔14مئی چند دن بعد ہے لیکن فنڈز جاری نہیں ہوئے، نظریہ ضرورت کی وجہ سےالیکشن مزیدتاخیرکاشکارنہیں کرسکتے۔ فاروق ناٸیک نے جو نکات اٹھائے ہیں وہ غیرمتعلقہ ہیں۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ فاروق ناٸیک نے عدالت کو صرف مشکلات سے آگاہ کیا۔

صرف ایک صوبے میں الیکشن تباہی لائے گا

دوران سماعت وفاقی وزیر ریلوے اورلیگی رہنما خواجہ سعد رفیق نے حکومت کا مؤقف عدالت کے سامنے رکھا۔ روسٹرم پرآنے کے بعد چیف جسٹس نے ان سے مکالمہ کیا، “ خوش آمدید خواجہ سعد رفیق صاحب“۔

سعد رفیق کا کہنا تھا کہ وکیل نہیں ہوں اس لیے عدالت میں بات کرنےکاسلیقہ نہیں جو کہوں گا سچ کہوں گا،سچ کے سوا کچھ نہیں کہوں گا۔ ماداروں اورسیاسی جماعتوں کےدرمیان عدم اعتماد بہت گہراہے، 2017سے عدالت نے ہمارے ساتھ ناانصافی کی۔

حکومتی موقف بیان کرنے والے سعد رفیق نے کہا کہ کوئی بھی اداروں میں تصادم نہیں چاہتا، اس کے متحمل کیسے ہوسکتے ہیں؟ مذاکرات کے دوران بہت کچھ سننا پڑا، آئین90دن کےساتھ شفافیت کابھی تقاضہ کرتا ہے،پنجاب پرالزام لگتا ہے کہ یہی حکومت کافیصلہ کرتاہے۔ الیکشن نتائج تسلیم نہ کرنے پر پہلے بھی ملک ٹوٹ چکا ہے،آئین کے تقاضوں کو ملا کر ایک ہی دن الیکشن ہوں، صرف ایک صوبے میں الیکشن ہواتوتباہی لائے گا۔

سعد رفیق نے کہا کہ سیلاب اور محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت پر انتخابات میں تاخیر ہوئی۔ کئی ماہ سے 63 اے والا نظرثانی کیس زیر التواہے۔ اس ہر چیف جسٹس نے بتایا کہ، “ 63 اے والی نظرثانی درخواست سماعت کیلئے مقررہو رہی ہے۔ اٹارنی جنرل کو اس حوالے سے آگاہ کردیا گیا ہے۔

خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ چاہتے ہیں شفاف الیکشن ہوں اور سب ان نتائج کو تسلیم کریں۔مذاکرات میں طے ہوا ہے کہ یہ لوگ نتائج تسلیم کریں گے،سندھ اور بلوچستان میں اسمبلیاں بہت حساس ہیں۔دونوں اسمبلیوں کو پنجاب کے لیے وقت سے پہلے تحلیل کرنا مشکل کام ہے۔ پی ٹی آئی نے کھلے دل سے مذاکرات کیے اس پر ان کا شکر گزار ہوں۔ مذاکرات کا مقصد وقت کا ضیاع نہیں ہے، میری تجویز ہے کہ یہ جاری رکھنے چاہئیں ، عدالت کو سیاسی معاملات میں الجھانے سے پیچیدگیاں ہوتی ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ ایک جمہوری پارٹی ہیں، جمہوریت کے ذریعے ہی اقتدار لیناچاہتے ہوں گے یا اپوزیشن۔ آج آپ کی طرف سے آج سنجیدہ باتیں ہوٸی ہیں اور یہی باتیں ہمیں لکھ کر دی جاسکتی تھیں۔

لازمی تو نہیں کہ بجٹ جون میں ہی پیش کیا جائے

چیف جسٹس نے اسمبلیوں کی تحلیل سے متعلق استفسارکرتے ہوئے کہا کہ ہم سن رہےتھےکہ بجٹ مئی میں بھی پیش کیاجاسکتاہے۔

اس پر سعد رفیق کا کہنا تھا کہ یہ وقت بھی گزر جائے گا، نہ پہلےوالامارشل لاءہے نہ گزشتہ دورکانقاب پوش مارشل لاءہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت اپنا ہاتھ روک کر بیٹھی ہے،حالات سازگار نہیں، بڑی بڑی جنگوں کے دوران بھی الیکشن ہو رہے ہیں، ترکی میں زلزلے کے دوران بھی الیکشن ہورہےہیں۔ آپ کی باتوں سے لگتا ہے آئین نہیں توڑنا چاہتے، پنجاب کی جو بات کی گئی ہے سیاسی ہے،لکھ کرنہیں دی گئی۔ عدالت کےسامنےصرف فنڈزاور سیکیورٹی کامعاملہ اٹھایاگیا، کم ازکم فنڈز تو جاری ہوسکتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ نیک بیتی دکھانے کیلیے اقدامات اٹھانے پڑتے ہیں، سیکیورٹی پر عدالت کو ان کیمرہ بریفنگ دی گئی، 8اکتوبر تک سیکیورٹی ٹھیک ہونے کی کیا گارنٹی تھی۔ صرف مفروضوں پر الیکشن کی تاریخ دی گئی ہے، 12 اگست کواسمبلی تحلیل ہوتی ہےتو12اکتوبرتک الیکشن ہوں گے۔ بجٹ تو مئی میں بھی پیش ہوتے رہے ہیں، لازمی تو نہیں کہ بجٹ جون میں ہی پیش کیا جائے۔

ہم نے سوموٹو لینے چھوڑدیے ہیں

چیف جسٹس نے سعد رفیق سے کہا، ’خواجہ صاحب آپ کی باتوں میں ہی وزن لگ رہا ہے، آپ چاہتے ہیں عدالت سوموٹو نکات اٹھائے، ہم نے سوموٹو لینے چھوڑ دیے ہیں۔

اس پر سعد رفیق نے کہا کہ سوموٹو کےنتیجےمیں پنجاب میں الیکشن کی تاریخ آئی، عدالت خود بھی اس نقطے پر غور کرسکتی ہے۔

چیف جسٹ نے سعد رفیق سے کہا کہ، “آپ کےعلاوہ کوئی سنجیدہ نقطہ اٹھانانہیں چاہتا، ابھی تک چار تین کی ہی بات چل رہی ہے،دونوں فریقین کو لچک دکھانی چاہئیے۔ آپ کا اتفاق رائے ہوجائےتوامتحان سے نکل سکتے ہیں اللہ نے امتحان مقررکیا ہےتو جو ہو گا دیکھا جائے گا۔

جواب میں سعد رفیق نے کہا کہ بات 2اور ہفتوں کی رہ گئی ہے،باتوں کیلئے بھی زیادہ وقت نہیں ہوتا اور ایسا نہ ہو ہم باتیں کرتے رہ جائیں۔ مذاکرات جاری رہیں تو اتفاق رائے ہوسکتا ہے۔

سماعت ملتوی

خواجہ سعد رفیق کا موقف سننے کے بعد چیف جسٹس نے سماعت ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ عدالت اس کارروائی سے متعلق مناسب حکم جاری کرے گی۔

سپریم کورٹ نے آج کی سماعت کیلئے اٹارنی جنرل سمیت دیگرفریقین کونوٹس جاری کررکھا تھا، اس کیس میں الیکشن کمیشن نے 14 مئی کو انتخابات کے عدالتی فیصلے پر نظرثانی درخواست دائرکررکھی ہے۔

گزشتہ سماعت کا تحریری حکم

گزشتہ روز سپریم کورٹ نے 27 اپریل کو ہونے والی سماعت کا تحریری حکم جاری کیا تھا، تین صحفات پرمشتمل تحریری حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ عدالت نے سیاسی جماعتوں کو مذاکرات کی ہدایت نہیں کی، یہ ان کی اپنی کوشش ہے۔ عدالت کی جانب سے 14 مئی کوانتخابات کرانےکاحکم برقرار ہے۔

حکم نامے کے مطابق اٹارنی جنرل نے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان رابطوں اور فاروق نائیک نے چیئرمین سینیٹ کے کردارسے عدالت کو آگاہ کیا۔

گزشتہ سماعت پر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطاء بندیال کہہ چکے ہیں کہ سیاسی جماعتیں ملک میں ایک ہی روز انتخابات کے حوالے سے معاملات طے کر لیں، بصورت دیگر آئینی طور پر ہمارے پاس 14 مئی کو انتخابات کی تاریخ واپس لینے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔

انہوں نے ریمارکس دیے تھے کہ عدالت مذاکرات پرمجبور نہیں کرسکتی صرف آئین پرعمل چاہتی ہے، سیاسی جماعتیں آئین کیلئے ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھیں، یہ صرف ایک تجویز ہے۔ قومی مفاد اور آئین کے تحفظ کیلئے اتفاق نہ ہوا تو پھر جیسا ہے ویسا ہی چلےگا۔

یاد رہے کہ پاکستان تحریک انصاف اور حکمران اتحاد کے درمیان اب تک تین مرتبہ مذاکرات ہو چکے ہیں، اسحاق ڈار کے بقول حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان ایک ہی روز الیکشن پراتفاق ہو چکا ہے۔ تاہم الیکشن کی تاریخ پر تاحال ڈیڈ لاک برقرار ہے۔

تحریک انصاف نے مذاکرات سے متعلق رپورٹ گزشتہ روز سپریم کورٹ میں جمع کروائی تھی جبکہ حکومتی اتحاد پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات سے متعلق اپنا جواب آج جمع کروایا ہے۔

حکومتی اتحاد کا جواب

سپریم کورٹ میں جواب حکومتی مذاکراتی کمیٹی کےسربراہ اسحاق ڈارنے اٹارنی جنرل کی وساطت سے جمع کرایا۔

حکومتی اتحاد کی جانب سے جمع کروائے جانے والے جواب میں کہا گیا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن ملک میں ایک تاریخ کوالیکشن کرانےپرمتفق ہیں۔ پی ٹی آئی نے ملک بھر میں ایک ہی تاریخ کو الیکشن کرانے پراتفاق کیا۔اس تاریخ پراتفاق نہیں ہوسکا کہ قومی اسمبلی اورصوبائی اسمبلیاں کب تحیل کی جائیں۔

جواب میں مزید کہا گیا ہے کہ حکومتی اتحادیوں نے مذاکرات میں لچک دکھائی،مذاکرات میں اسمبلیوں کووقت سے پہلے تحلیل کرنے پر بھی غور کیا گیا۔

Supreme Court of Pakistan

CJP Bandial

Politics May 5 2023