Aaj News

اتوار, نومبر 03, 2024  
01 Jumada Al-Awwal 1446  

بلاول کی سینئیر صحافیوں کے ہمراہ بھارت یاترا، مقصد کیا ہے

اجلاس آخر ہے کس چیز کا اور اس سے کیا نتیجہ نکل سکتا ہے۔
شائع 03 مئ 2023 11:53pm
SCO Foreign Ministers meeting will be held in India tomorrow - Aaj News

وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری چار اور پانچ مئی کو بھارت کے شہر گُوا میں ہونے والی شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کی وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس میں شرکت کیلئے بھارت جائیں گے۔ اور وہ اکیلے نہیں جائیں گے بلکہ اپنے ساتھ ملک کے کئی نامور صحافیوں کو بھی ساتھ بھارت لے گئے ہیں۔

ایسے میں کئی برس بعد ہونے والے کسی پاکستانی وزیر کے دورہ بھارت کے حوالے سے مختلف قیاس آرائیاں جاری ہیں۔

لیکن ان تمام قیاس آرائیوں پر کان نہ دھرتے ہوئے ضروری ہے کہ آپ اس اہم ترین دورے سے متعلق چار ضروری چیزیں جان لیں۔

شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کیا ہے؟

شنگھائی تعاون تنظیم 2001 میں اس وقت قائم ہوئی جب ازبکستان نے شنگھائی فائیو نامی گروپ میں شمولیت اختیار کی۔

اس کے اصل ارکان، چین، قازقستان، کرغزستان، روس، تاجکستان تھے، اس کے بعد ازبکستنا اس گروپ میں شامل ہوا، اور 2017 میں پاکستان اور بھارت نے بھی اس میں شمولیت اختیار کرلی۔

کیونکہ 2023 میں ایس سی او کی صدارت بھارت کے حصے میں آئی تھی۔ اس لیے وہ اب اس سربراہی اجلاس کی میزبانی کر رہا ہے۔

چین، بھارت اور روس کے وزرائے خارجہ کی موجودگی میں یہ میٹنگ ایک گروپ کے طور پر ہاتھ میں ہاتھ ڈالے مل جل کر رہنے سے زیادہ کی اہمیت اختیار کر گئی ہے۔

دنیا کی جی ڈی پی کے 30 فیصد سے زیادہ اور دنیا کی 40 فیصد آبادی کی نمائندگی کرنے والے ایس سی او ممالک کے لیے یہ اجلاس خود کو ثابت کرنے کا ایک موقع ہے۔

7 سال سے کوئی پاکستانی وزیر خارجہ بھارت نہیں گیا

آخری بار کوئی پاکستانی وزیر خارجہ بھارت گیا تھا تو وہ سرتاج عزیز تھے جو دسمبر 2016 میں ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کے لیے امرتسر گئے تھے۔

اس وقت پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی عروج پر تھی۔

ستمبر میں اڑی حملہ ہوا تھا اور ہندوستان نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے سرحد پار سے سرجیکل اسٹرائیک کی تھی۔

تاہم، سرتاج عزیز کی موجودگی صرف پاکستان پر دہشت گردی کی سرپرستی کے الزامات کا باعث ہی بنی۔

پاکستان کے افغانستان میں ترقی کے لیے 500 ملین ڈالر کے وعدے کے باوجود افغان صدر اشرف غنی نے یہاں تک کہ دیا تھا کہ پاکستان کو ’دہشت گردی کے خلاف جنگ میں‘ خود مدد کی ضرورت ہے۔

سرتاج عزیز کو میڈیا سے بات کرنے سے بھی روک دیا گیا۔

’پاکستان الگ تھلگ نہیں ہونا چاہتا تھا‘

سینئیر صحافی منیزے جہانگیر کا کہنا ہے کہ اس کی کوئی توقع نہیں کہ اجلاس میں کوئی بریک تھرو ہوگا، حکام کی جانب سے بار بار صحافیوں کو یہ بتایا جارہا ہے کہ یہ کوئی دوطرفہ ملاقات نہیں بلکہ ملٹی لیٹرل فورم اجلاس ہے جس میں جولائی میں ہونے والے سربراہی اجلاس کیلئے ورک پلان تیار کیا جائے گا، جس میں وزیراعظم شہباز شریف بھی شرکت کریں گے۔

انہوں نے وضاحت کی کہ کیونکہ ایس سی او کی قیادت چین اور روس کرتے ہیں اسی لئے پاکستان خود کو الگ تھلگ نہیں کرنا چاہتا تھا اسی لیے بلاول بھٹو نے فیصلہ کیا کہ ان کو گوا جانا چاہئیے۔

منیزے جہانگیر نے کہا کہ امید یہ ہے بلاول بھٹو کے دورے کو بہت غور سے دیکھا جائے گا، یہ بھی دیکھا جائے کہ کیا ان کے بھارتی ہم منصب سبرامنیم جے شنکر ان سے ملاقات کرتے ہیں یا نہیں۔ لیکن کل کیمروں کی آنکھوں سے دور ایک عشائیہ دیا جائے گا جس میں دونوں کی ملاقات متوقع ہے۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان دو طرفہ ملاقات شاید نہ ہو

بلاول بھٹو کے دورے سے چند روز قبل یہ افواہ اڑائی گئی تھی کہ پاکستان نے وزیر خارجہ بلاول بھٹو اور بھارت کے وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر کے درمیان ملاقات کی درخواست کی تھی لیکن بھارت نے اسے مسترد کر دیا تھا۔

جواب میں پاکستانی حکام نے واضح کیا کہ ایسی کسی ملاقات کی کبھی درخواست نہیں کی گئی۔

حکام کا کہنا تھا کہ بلاول وزارتی اجلاس میں شرکت کے واحد مقصد کے ساتھ سفر کررہے تھے۔

بلاول نے خود اس ہفتے کے شروع میں ایک پریس کانفرنس میں اس صورتِ حال کے حوالے سے گفتگو کی۔ انہوں نے کہا کہ ایس سی او کے قوانین اس تقریب میں دو طرفہ معاملات پر بات کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔

پھر بھی، دو وزرائے خارجہ کے ایک ہی کمرے میں ہونے پر کوئی امید تو لگائی ہی جاسکتی ہے۔

پاکستانی صحافیوں کے وفد کا ساتھ جانا

پاکستان سے صرف بلاول اور ان کا وفد ہی نہیں بلکہ ان کے ساتھ ایک درجن کے قریب صحافیوں کا گروپ بھی اس تقریب میں شریک ہوگا۔

بین الاقوامی اسٹیج پر میڈیا کے تعاملات اکثر کچھ بڑی سرخیاں بناتے ہیں اور دو خاص مثالیں اس بات کی وضاحت کرتی ہیں کہ چیزیں کتنی بلند آواز ہو سکتی ہیں۔

2013 میں اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر دو صحافیوں حامد میر اور برکھا دت کو ناشتے پر مدعو کیا تھا۔

بعد میں جیو نیوز سے بات کرتے ہوئے حامد میر نے نواز شریف کے حوالے سے کہا کہ بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ نے پاکستان کو دیہاتی عورت یا دیہاتی خاتون سے تشبیہہ دی تھی۔

یہ تنازعہ اس وقت ختم ہوا جب پاکستانی حکام اور حامد میر خود دونوں نے واضح کیا کہ ایسا کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا تھا، لیکن تنازعہ کافی بڑا ہوا تھا۔

پھر 2022 میں، بلاول بھٹو زرداری سے سلامتی کونسل کے وزارتی سطح کے اجلاس کے موقع پر پاکستان میں دہشت گردی کی سرپرستی کرنے کے حوالے سے جے شنکر کے الزامات کے بارے میں سوال پوچھا گیا۔

بلاول نے جواب دیا کہ ”اسامہ بن لادن مر چکا ہے، لیکن گجرات کا قصاب زندہ ہے، اور وہ (بھارت کا) وزیراعظم ہے۔“

جس کے بعد سرحد کے دونوں طرف کے میڈیا نے ایک زبردست بحث کا آغاز کیا، بلاول نے معصومیت سے وضاحت کی کہ انہوں نے محض ’تاریخی حقائق‘ بیان کیے ہیں۔

چاہے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں کوئی ایسی کڑوی بات کہی جائے یا نہیں، جو شہ سرخیوں کی جنگ کا آغاز کرے، کچھ باتیں تو یقینی ہیں، کچھ سخت سوالات پوچھے جائیں گے اور جب ان کا جواب دیا جائے گا تو دنیا سن رہی ہوگی۔

india

پاکستان

Bilawal Bhutto Zardari

shanghai cooperation organization

SCO meeting

Pakistani Journalists