بھارت میں کنٹونمنٹ بورڈ ختم کرانے کے پیچھے کون، فوج کو کیسے فائدہ ہوگا
بھارت نے ملک سے تمام کنٹونمنٹس ختم کرنے اور انہیں ”خصوصی فوجی اسٹیشن“ میں تبدیل کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔
بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق ملک بھر میں 62 چھاؤنیوں کو فوجی مراکز میں تبدیل کر دیا جائے گا جس کے بعد بھارتی فوج کا ان علاقوں پر مکمل کنٹرول ہوگا۔
جبکہ کنٹونمنٹس کے شہری علاقوں کو مقامی میونسپلٹیوں کے ساتھ ضم کردیا جائے گا جو دیگر امور چیزوں کے ساتھ ساتھ ان علاقوں کی دیکھ بھال کی بھی ذمہ دار ہوں گی۔
یہ فیصلہ کنٹونمنٹ بورڈ کے پورے نظام کو ختم کرنے کی کوشش میں کیا گیا ہے جو کہ بھارت میں برطانوی دور حکومت میں رائج کیا گیا تھا۔
گزشتہ سال، وزیر اعظم نریندر مودی نے طیارہ بردار بحری جہاز وکرانت کی کمیشننگ تقریب میں بحریہ کے جھنڈے کی نقاب کشائی کی تھی، جس میں مراٹھا بادشاہ شیواجی مہاراج کی مہر سے متاثر ہوکر نیا پرچم اپنایا گیا تھا اور کراس آف سینٹ جارج کو ختم کردیا گیا تھا۔
انہوں نے اس عمل کو بھی کالونئیل ماضی کے بوجھ سے چھٹکارا حاصل کرنے کے طور پر بیان کیا تھا۔
منصوبے کے تحت یول نامی پہلے کنٹونمنٹ کا نام بدل کر ملٹری سٹیشن رکھ دیا گیا ہے جو کہ ہماچل پردیش میں واقع ہے، اس کے بعد سکندرآباد اور نصیر آباد کے کنٹونمنٹس کی باری ہے۔
یول چھاؤنی کے مکینوں کا کافی عرصے سے مطالبہ تھا کہ انہیں کنٹونمنٹ کے علاقے سے باہر رکھا جائے۔
کنٹونمنٹ کے 12,028 رہائشی طویل عرصے سے مطالبہ کر رہے تھے کہ کنٹونمنٹ بورڈ کو ترقیاتی سرگرمیوں کی خاطر ختم کیا جائے۔
بالآخر ہماچل اور دارالحکومت کے عہدیداروں کی 2020 میں ملاقات ہوئی اور آخر کار رہائشیوں کے مطالبات کو پورا کیا گیا۔
وزارت دفاع کی ایک انٹر سروسز آرگنائزیشن ڈائریکٹوریٹ جنرل آف ڈیفنس اسٹیٹس براہ راست کنٹونمنٹ انتظامیہ کو کنٹرول کرتی ہے، اس کے مطابق ملک میں 62 کنٹونمنٹس ہیں جنہیں آزادی سے قبل کنٹونمنٹ ایکٹ 1924 کے تحت قائم کیا گیا تھا۔ اس قانون کو کنٹونمنٹ ایکٹ 2006 کے زریعے تحفظ فراہم کیا گیا۔
ٹائمز آف انڈیا نے ایک اہلکار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ، ”یہ عمل ان کنٹونمنٹس میں تیزی سے ہوگا جہاں سول اور ملٹری علاقوں کے درمیان حد بندی آسان ہے۔ جبکہ دیگر میں کام وقت طلب ہوگا۔“
تاہم، رپورٹ کے مطابق تمام چھاؤنیاں ملٹری اسٹیشن میں تبدیل نہیں کی جائیں گی، کیونکہ کچھ فوج اور سویلین علاقے آپس میں ملے ہوئے ہیں۔
عوام کا فائدہ
چھاؤنیوں کے رہائشیوں کو شکایت ہے کہ کنٹونمنٹ بورڈز ان کی روزمرہ مشکلات کا حل نکالنے میں ناکام رہے ہیں جو کہ کنٹونمنٹ کے اندر رہنے کے باعث پیدا ہوتی ہیں، مثلاً ہوم لون تک رسائی، احاطے میں آزادانہ نقل و حرکت وغیرہ۔
گوالیار میں مورار کنٹونمنٹ کے نائب صدر شیلیندر سنگھ کشواہ نے دی پرنٹ کو بتایا کہ چھاؤنیوں میں پابندیاں اندر رہنے والی شہری آبادی کے لیے پریشانی کا باعث ہیں۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ”چھاؤنیوں کے اندر رہنے والے غیر فوجی پس منظر کے شہریوں کو ہوم لون آسانی سے نہیں ملتے کیونکہ اسے دفاعی زمین سمجھا جاتا ہے۔ کچھ سرکاری اسکیمیں جو باقاعدہ آبادی کے لیے لاگو ہوتی تھیں، جیسے پردھان منتری آواس یوجنا، ہمیشہ چھاؤنیوں میں رہنے والے لوگوں پر لاگو نہیں ہوتی ہیں۔“
کنٹونمنٹس ختم کرنے کے اس اقدام سے مبینہ طور پر ان شہریوں کو فائدہ پہنچے گا جو ریاستی حکومت کی فلاحی اسکیموں تک رسائی حاصل نہیں کر پارہے تھے۔
یہ تبدیلی فوج کو ملٹری اسٹیشنوں کی ترقی پر زیادہ توجہ دینے کے قابل بھی بنائے گی۔
فوج کو کیا فائدہ ہوگا؟
ایک رپورٹ کے مطابق مسلح افواج کے اس تجویز سے متفق ارکان نے اس کے حق میں دو وجوہات بیان کی ہیں۔
پہلا یہ کہ وہ فنڈز جو پہلے کنٹونمنٹس کے شہری علاقوں کی دیکھ بھال کے لیے استعمال کیے جا رہے تھے، اب دفاعی خریداری کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ فرائض کی واضح حد بندی ہوگی۔ یہ عمل اس بات کو یقینی بنائے گا کہ فوجی اسٹیشنز کا نظم و نسق کے ہاتھ میں ہوگا، اور ان کی ڈیوٹی سویلین علاقوں تک نہیں پھیلے گی۔
جہاں بھارتی مسلح افواج کے اندر موجود ایک طبقہ کا ماننا ہے کہ شہریوں کے رہنے کی جگہوں اور سڑکوں کو برقرار رکھنا فوج کا کام نہیں ہونا چاہیے۔
وہیں دوسری طرف یہ خطرہ بھی ہے کہ اس عمل کے بعد یہ زمین زیادہ باوقار رہائشی علاقے کے بجائے بلڈر مافیا کا نشانہ بن جائے گی۔
سابق 15 کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل گرمیت سنگھ (ریٹائرڈ) کا کہنا ہے کہ ”تجاوزات اور زمینوں پر قبضہ لینڈ مافیا چھاؤنیوں کے لیے دو سب سے بڑے خطرات ہیں جو اکثر مقامی سیاست سے جڑے ہوتے ہیں۔“
Comments are closed on this story.