کشمیری شہری کی شہادت پر پردہ ڈالنے کی بھارتی صحافیوں کی فون کال لیک
کشمیریوں کی حق خود ارادیت کی تحریک سے خوفزدہ مودی سرکار بے گناہ اور نہتے کشمیریوں پر ظلم و تشدد کے پہاڑ توڑ رہی ہے، اور انہیں دہشت گرد ثابت کرنے کے لئے روز نئے ڈرامے رچا رہی ہے، تاہم اس کے وہ منصوبے بے نقاب ہوجاتے ہیں۔
کشمیریوں کے احتجاج کے خوف سے بھارتی قابض فوج کی جانب سے بڑے پیمانے پر گرفتاریاں جاری ہیں اور 21 اپریل سے اب تک 4 ہزار سے زائد کشمیری مسلمانوں کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔
رپورٹ کے مطابق کشمیری شہریوں کی گرفتاریاں پلوامہ، اننت ناگ، سرینگر، پونچھ اور بارہ مولا سے کی گئیں، اور ان گرفتار ہونے والوں میں 500 سے زائد خواتین بھی شامل ہیں، جب کہ گرفتار و نظر بند افراد میں حریت رہنما، امام مساجد و منتظمین بھی شامل ہیں۔
بھارتی قابض فوج اور پولیس کی جانب گرفتار کئے گئے 50 سالہ ایک کشمیری شہری مختار حسین کو 26 اپریل کو مینڈھر میں پولیس نے تشدد کرکے شہید کردیا تھا، اور مودی سرکار نے مختار حسین کی شہادت پر پردہ ڈالنے کے لیے واقعے کو خود کشی قرار دے دیا، اور گودی میڈیا اور صحافیوں کو اخبارات میں واقعے کو خودکشی لکھنے کی ہدایت کی۔
دوسری جانب بھارتی ”امر اجالا اخبار“ کے ایڈیٹر منموہن لعل کی آڈیو ٹیپ منظرعام پر آگئی ہے جس میں قلعی کھلی ہے کہ مختار حسین نے خودکشی نہیں کی بلکہ اسے شہید کیا گیا ہے۔
کشمیری شہری کی ہلاکت پر پردہ ڈالتے ہوئے ایک اور بھارتی صحافی کی فون کال لیک ہو گئی ہے جس میں بھارتی صحافی منیش شرما کو اپنے ماتحت کو حقائق مسخ کرنے کی ہدایات دیتے ہوئے سنا جا سکتا ہے۔
منیش شرما نامی صحافی اپنے ماتحت کو جھوٹ لکھنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ مختار حسین کو 21 اپریل کو گرفتار کیا گیا کہاں رکھا گیا، یہ لکھنا پڑے گا ایک دن تھانے میں رکھنے کے بعد 22 اپریل کو چھوڑ دیا گیا۔
منیش شرما کہتا ہے کہ مختار حسین کو 26 اپریل کو بلایا گیا لیکن وہ اس سے پہلے ہی مر گیا تھا۔ کال کے آخر میں صحافی کو یہ کہتے بھی سنا جاسکتا ہے یہ ایسا لکھنا پڑے گا کیونکہ وکیل کام کریں گے، پھر کہتا ہے کہ اچھا چلو ٹھیک ہے جانے دو اب۔م
دوسری جانب پونچھ کے رہائشی مختار حسین کی شہادت کے بعد مقبوضہ کشمیر میں مظاہرے جاری ہیں، اور شہید کے اہل خانہ نے مختار شاہ کی موت کے حوالے سے مجسٹریٹ کی انکوائری رپورٹ کو رد کر دیا ہے۔ شہید کے بھائی کا کہنا ہے کہ مختار حسین کے جسم پر تشدد کے کئی نشانات تھے۔
Comments are closed on this story.