برطانوی ذرائع ابلاغ بھارت سے خوفزدہ ، کارٹون شائع کرنے سے گریز
جرمن اخباردیر اشپیگل میں شائع کیے جانے والے ایک کارٹون میں بھارت کے چین کو پیچھے چھوڑتے ہوئے دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک قرار دیے جانے پر بھارتیوں نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئےاسے ’نسل پرستانہ‘ قرار دیا ہے۔ بھارتیوں کے احتجاج کے بعد برطانوی ذرائع ابلاغ نے یہ کارٹون شائع کرنے سے گریز کیا۔
رواں ماہ کے اوائل میں اقوام متحدہ کا کہنا تھا کہ بھارت رواں سال کے وسط تک چین کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن جائے گا۔
پیر کے روز اس حوالے سے کہا گیا کہ بھارت کی آبادی رواں ماہ (اپریل) کے اختتام تک چین کو پیچھے چھوڑ دے گی۔
دیر اشپیگل میں شائع کارٹون میں بھارتی ریلوے کی ایک بھیڑ بھاڑوالی ٹرین دکھائی گئی ہے جس میں مسافر اطراف سے لٹک رہے ہیں اور اس کے اوپر متوازی پٹری پر چلنے والی ایک چھوٹی چینی ٹرین کو پیچھے چھوڑ رہے ہیں۔ بھارت میں ٹرینوں میں انتہائی رش دیکھا جاتا ہے کیونکہ یہ ان لاکھوں لوگوں کے لئے نقل و حمل کا سستا ذریعہ ہیں جو پورے ملک میں سفر کرنا چاہتے ہیں۔
کارٹون کی اشاعت پر بہت سے بھارتیوں نے اخبارکو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اس سے نسل پرستی کی بو آتی ہے اور یہ ملک کے بارے میں ”پرانے دقیانوسی تصورات کو فروغ دینے“ کی گھناؤنی کوشش ہے۔
بھارتی وزارت اطلاعات و نشریات کے سینئر مشیر کنچن گپتا نے جرمن اخبار کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اس کارٹون کا مقصد بھارت کو چین کے حوالے کرنا ہے۔
انہوں نے اپنی ٹویٹ میں لکھا، ’جرمنی یہ انتہائی نسل پرستانہ ہے، ہندوستان کو اس طرح پیش کرنے کی حقیقت سے کوئی مماثلت نہیں ہے۔ ’یہ اتنا ہی برا ہے جتنا کہ نیو یارک ٹائمز میں بھارت کے کامیاب مریخ مشن کی عکاسی کرنے والا نسل پرستانہ کارٹون ۔‘
یہ حوالہ 2014 کے ایک کارٹون کی طرف تھا جو نیو یارک ٹائمز نے بھارت کے مریخ مشن کے آغاز کے بعد شائع کیا تھا۔ بھارتیوں نے دعویٰ کیا تھا کہ کارٹون میں ان کے ملک کا مذاق اڑایا گیا ہے جس پر اخبار نے بعد میں معافی نامہ جاری کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ جرمن میگزین ڈیر اشپیگل کی جانب سے بھارت کی آبادی کے بارے میں کارٹون انتہائی قابل مذمت ہے جس میں بھارت کو اشرافیہ، اعلیٰ اور نوآبادیاتی ذہنیت کے حامل چین سے آگے لے جانے کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ مغرب ہندوستان کی ترقی اور خوشحالی سے حسد کرتا ہے۔
جرمن زبان میں ’دیر اشپیگل‘ کا مطلب ’دی مرر‘ ہوتا ہے۔ بھارتی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے قومی نائب صدر بیجیانت جے پانڈا نے ٹویٹ کیا کہ اس توہین آمیز اور نسل پرست کارٹون کو دیکھتے ہوئے جرمن اخبار کو اپنا نام بدل کر ’نسل پرستانہ ٹرول‘ رکھنا چاہیئے۔
رکن پارلیمنٹ وجے سائی ریڈی وی نے جرمن میگزین کو بدذوق قراردیا۔
انہوں نے کہا کہ مغربی دنیا ہھارت کو غریب اور جدوجہد کرنے والے کے طور پر پیش کرنے کو ترجیح دیتی ہے۔ مجھ سے آئندہ چند سال کا انتظار نہیں ہوپارہا جب بھارت جرمنی کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کا چوتھا بڑا جی ڈی پی والا ملک بن جائے گا۔
واضح رہے کہ برطانوی ذرائع ابلاغ میں جرمن میگزین کا نسل پرستانہ قرار دیا جانے والا یہ کارٹون شائع نہیں کیا گیا، اس کی وجہ بھارتی دباؤ ہے یا صحافتی اصول، یہ تو وہی جانیں تاہم بی بی سی اور گارجین جیسے اداروں نے اس خبر کے ساتھ کارٹون شامل نہیں کیا۔
Comments are closed on this story.