پاکستان ٹوٹنے کی وجہ غلط عدالتی فیصلہ تھا، جسٹس قاضی فائز
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا ہے کہ از خود نوٹس کسی کو فائدہ دینے کیلئےاستعمال نہیں کیا جاسکتا۔
اسلام آباد میں منعقدہ آئین کی گولڈن جوبلی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ہم آئین پاکستان کی گولڈن جوبلی منارہےہیں، آئین پاکستان ہر شہری کیلئے ہے، 10 اپریل 1973 کو مشترکہ طور پر اسے اپنایا گیا۔
جسٹس قاضی فائز کا کہنا تھا کہ یہ کتاب صرف پارلیمان نہیں لوگوں کیلئےبھی اہم ہے، اس کتاب میں لوگوں کے حقوق ہیں، ایک جدوجہد کے بعد پاکستان1947 میں قائم ہوا، اور دنیا کے نقشے قدم پر پہلی بار مسلم ریاست وجود میں آئی۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم آئین کی تشریح کرسکتےہیں، جب ناانصافی ہوتی ہےتووہ زیادہ دیرتک نہیں ٹھہرتی، آئین کو اس طرح پیش نہیں کیا جاتا جس کا وہ مستحق ہے۔
جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ ہمیں دیکھنا چاہئے جھوٹ اور بداخلاقی کے نتائج کیا نکلتے ہیں، دسمبر 1971 میں پاکستان ٹوٹ گیا، یہ ملک اچانک نہیں ٹوٹا بلکہ اس کے لئے بیج بوئے گئے، اور جو بیج بویا گیا اس نے ملک کے 2 ٹکڑے کر دیئے، 1971میں قوم کا سر جھکا ہوتا تھا اور قوم شرمندہ تھی، پھر 4 جولائی1977 کوایک شخص نے جمہوریت اور آئین پر وار کیا اور اس شخص نے11سال حکومت کی، پھرجہاز کے حادثے میں اس کا انتقال ہوگیا۔
جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں ایک ڈکٹیٹر آتا ہے، پھر کچھ عرصہ بعد خود کو دھوکا دینے لگتا ہے، اور سوچتا ہے میں تو جمہوریت پسند ہوں، 30 دسمبر 1985 میں بھی مارشل لاء اٹھایا گیا۔
سینئر جج نے کہا کہ پاکستان ٹوٹنےکی بڑی وجہ غلط فیصلہ تھا، 1962 کے آئین میں جمہوریت کو ختم کر دیاگیا تھا، 12 اکتوبر 99 میں ایک آدمی نےسوچا تھا مجھ سے بہتر کوئی نہیں، اور انہوں نے دوسرا وار 3 نومبر2007 میں کیا، مشرف صاحب نے خود ہی اپنے آپ کو آئینی تحفظ دےدیا۔
جسٹس فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ اگرکوئی فیصلہ غلط ہے تو وہ غلط ہی رہے گا، تاریخ ہمیں7 بار سبق دے چکی ہے، تاریخ سے کچھ سیکھا نہیں تو وہ خود کو دہراتی رہے گی، ہم پر آئین کا بوجھ زیادہ ہے، ہر شہری آئین پاکستان کی کتاب کا پابند ہے، آئین کا بڑا حوصلہ ہے، ہمیں بھی چاہئے ہم اپنا حوصلہ دکھائیں۔
جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ ہر چیز کا اپنی جگہ پر ہونا لازمی ہے، ظالم کہتا ہے میری مرضی، آئین کہتا ہےلوگوں کی مرضی، یقیناً انصاف اور حقوق کیلئےعدالتیں ہی ہوتی ہیں، سو موٹو کا لفظ آئین میں استعمال نہیں کیا گیا، آئین میں 184 تین کو سوموٹو کہا جاتا ہے، از خود نوٹس کسی کو فائدہ دینے کیلئے استعمال نہیں کیاجاسکتا، شق 184 تین کا پاکستان میں بھرپور استعمال کیا گیا، اس شق کے تحت سپریم کورٹ ٹرائل کورٹ بن جاتی ہے۔
جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ سارے اختیارات ہمارے پاس نہیں ہیں، دوسرے ادارے بھی ہیں، الیکشن کمیشن بھی ہے، وہ ایک الگ ادارہ ہے، از خود نوٹس کی شق صرف مظلوموں کیلئے ہے کسی کو فائدہ دینے کیلئے نہیں، از خود نوٹس کے استعمال سے متعلق قدم پھونک پھونک کر رکھنا چاہئے، ازخود نوٹس کا اختیار سپریم کورٹ کا ہے، میرے دوستوں کی رائے ہے یہ اختیار چیف جسٹس کا ہے۔
جسٹس فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ میں جب سے سپریم کورٹ کا جج بنا کبھی اپنی پسند، ناپسند کا اظہار نہیں کیا، کبھی کسی بینچ میں بیٹھنے یا نہ بیٹھنے کی سفارش نہیں کی۔
Comments are closed on this story.