Aaj News

ہفتہ, نومبر 02, 2024  
01 Jumada Al-Awwal 1446  

وہ لڑکی جس نے ہتھیلی پرلکھا تھا، ’کاپی ضرور پڑھنا‘

پولیس سرجن ڈاکٹر سمیہ سید طارق کی زبانی ایک المناک داستان
اپ ڈیٹ 18 اپريل 2023 12:50pm

میرا ذریعہ معاش کسی ڈراؤنے خواب کی مانند ہے، میں معذور، اذیت زدہ، بدسلوکی کا نشانہ بننے والے بدقسمت لوگوں کو سنبھالتی ہوں، جو قسمت یا حالات کی ستم ظریفی کا شکار ہوتے ہیں۔ کبھی وہ اپنے پیاروں کے لیے یہ باب بند کرنا چاہتے ہیں، کبھی وہ انصاف کے طلبگار ہوتے ہیں اورشاذ و نادر ہی چاہتے ہیں کہ ہم انہیں سنیں۔

یہ اس نوعمر لڑکی کی داستان ہے جو صرف اپنی کہانی سنانا چاہتی تھی۔ اب وقت آگیا ہے کہ پوری دنیا بھی اسے سنے۔

میری اس لڑکی سے ملاقات شب برات کے اگلے دن ہوئی، وہ ایک دبلی پتلی لڑکی تھی جس کے ساتھ اس کی نانی اور چھوٹا بھائی بھی تھا، والد کی غیر موجودگی نمایاں تھی۔ نانی کی آنکھیں خشک تھیں۔ اس کا بھائی جو خود بھی نوعمر تھا۔

مجھے صرف اتنا بتایا گیا کہ لڑکی نےکیڑے مار دوا والا حلوہ کھایا تھا۔

’’اسے کیڑے مار دوا کہاں سے ملی؟‘‘ میں نے پوچھا۔ جواب ملا، ”ایک نزدیکی دکان سے۔“

’’اس کے والد کہاں ہیں؟ یا خاندان؟“

ان کے چہروں پر موجود نفرت سے مجھے کافی حد تک اپنے سوال کا جواب مل گیا۔

اور پھر میں نے مزید گہرائی میں تحقیق کی۔ اس دوران لڑکی کی نانی خاموش رہیں سوائے اس درخواست کے کہ ان کی نواسی کی موت کو خودکشی قرار نہ دیا جائے۔ میں اس تشویش کو سمجھ سکتی تھی۔ ایک لڑکی کا اتنی کم عمری میں مرجانا ایک المیہ ہے لیکن اس کی خودکشی سے پورے خاندان کو سماجی طور پرالگ تھلگ کردیا جائے گا۔

’’تو کیا یہ قتل ہے؟‘‘

جواب اس کے بھائی نے دیا، “ہاں، ابو نے اسے قتل کر دیا’’ ۔

اس کا جسم ٹھنڈا تھا، ناک پر ہلکا سا جھاگ تھا۔ اس کی آنکھیں آدھی بند تھیں اور اس کے ہاتھ اکڑے ہوئے تھے۔ میں دیکھ سکتی تھی کہ اس کی بائیں ہتھیلی پر کچھ لکھا ہوا تھا۔ میں نے اسے اتنا کھولا کہ ان الفاظ کو پڑھ سکوں، وہاں لکھا تھا، ”کاپی ضرور پڑھنا۔“

میں نے پوچھا ، ”کاپی کہاں ہے؟“ ۔۔۔ بھائی نے بتایا، ”’’اس کی چارپائی کے نیچے۔“

یہاں سے یہ کہانی بہت زیادہ مانوس لگنے لگی۔ وہ ایک عام سی لڑکی تھی جس کے خواب عام تھے (چھٹیوں کے دوران بھی اسکول جانے کی شدید خواہش تھی)۔

اس کاپی میں مہندی کے ڈیزائن، اردو اشعار اور اس کی مختصر اذیت ناک زندگی کے بارے میں تھوڑی بہت جھلکیاں ، جو بال پوائنٹ سے لکھی گئی تھیں۔ وہ کس طرح اپنی بڑی بہن کی موت پر سوگ منانا چاہتی تھی لیکن اس کے والد نے اس کی اجازت نہیں دی۔ کس طرح اس نے آپی کو اذیت دینے پر باپ کی موت کی خواہش کا اظہار کیا۔

اس کاپی کے صفحات اپنی چھوٹی بہنوں کے بارے میں اس کی تشویش کوظاہر کررہے تھے اور بتایا گیا تھا کہ کس طرح امی نے ابو کا سامنا نہ کرکے خود کو بچایا، وہ اپنے چھوٹے بھائی کیلئے بھی فکرمند تھی لیکن چونکہ وہ نانی کے ساتھ رہتاتھا تو اس لیے وہ اسے محفوظ سمجھتی تھی۔

اس نے اُن راتوں کے بارے میں لکھ رکھا تھا جن میں اسے بغیر کھانے کے رہنا پڑتا ہے کیونکہ اس نے اپنے والد کو ”گندی بات“ سے انکارکردیا تھا۔ اس کی ماں اس پردباؤ ڈالتی ہے، یہ کہتے ہوئے کہ اگر وہ اس کی اجازت نہیں دیتی تو اس کا باپ والد دوسری عورتوں کے پاس چلا جائے گا۔ وہ اپنی چھوٹی بہنوں کے بارے میں فکرمند ہے جو اس وقت باپ کا ”اگلانشانہ“ ہو سکتی ہیں جب وہ اتنی بڑی ہو جائیں گی۔ وہ اپنی نانی اور بھائی کو معاف کر دیتی ہے کیونکہ وہ بھی اسی کی طرح بے بس ہیں۔

اگر خودکشی کی کوشش اور خود کو نقصان پہنچانا مدد کے لیے پکار ہے، تو مکمل خودکشی اتنے سالوں کے بعد بھرپوراحتجاج ہے، اس نے اتنے سالوں کی خاموشی کے بعد اتنی اونچی آواز میں چیخنے کا فیصلہ کیا تا کہ اسے سنا جا سکے۔

پوسٹ اسکرپٹ: اس کے جسم پر دردناک جنسی چوٹیں تھیں اور جنسی طور پر منتقل ہونے والا انفیکشن بھی سامنے آیا تھا۔

ڈاکٹر سمیہ سید طارق فارنزک کنسلٹنٹ اور کراچی پولیس سرجن

sucide

Rape Case

Police Surgeon