Aaj News

جمعہ, نومبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Awwal 1446  

خواجہ آصف کا افغانستان میں دہشتگردوں پر حملوں کا انتباہ، افغان آرمی چیف نے خبردار کردیا

طالبان افغان سیکیورٹی فورسز کی طاقت بڑھانے کیلئے طیارہ شکن صلاحیت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
شائع 13 اپريل 2023 10:24pm

پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے خبردار کیا ہے کہ اگر افغانستان کی طالبان حکومت پاکستان مخالف عسکریت پسندوں کو لگام ڈالنے میں ناکام رہی تو اسلام آباد افغانستان کے اندر دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملہ کرسکتا ہے۔

بارہ اپریل کو امریکی خبر رساں ادارے ”وائس آف امریکہ“ کو دیے گئے انٹرویو میں خواجہ آصف نے کہا کہ انہوں نے فروری کے آخر میں دورہ افغانستان کے دوران طالبان رہنماؤں کو یاد دلایا تھا کہ وہ سرحد پار سکیورٹی کے اپنے وعدوں پر عمل کریں۔

خواجہ آصف نے کہا کہ انہوں نے طالبان رہنماؤں کو باور کرایا تھا کہ افغان سرزمین کو دہشت گردوں کی جانب سے پاکستان پر حملوں اور اس کی منصوبہ بندی کے لیے استعمال ہونے سے نہ روکا گیا تو پھر پاکستان کارروائی کرے گا۔

بقول وزیر داخلہ ”اگر ایسا نہ کیا گیا تو کسی وقت ہمیں کچھ اقدامات کرنا ہوں گے، جو یقینی طور پر ہوں گے۔ افغان سر زمین پر جہاں بھی اور ان (دہشت گرد) کی پناہ گاہیں ہوں گی، ہمیں انہیں نشانہ بنانا پڑے گا۔“

خواجہ آصف نے کہا کہ افغانستان میں دہشت گردوں کو اس لیے نشانہ بنانا پڑے گا کیوں کہ اس صورتِ حال کو زیادہ دیر تک برداشت نہیں کرسکتے۔

دوسری جانب 12 اپریل کو ہی افغانستان کے آرمی چیف قاری فصیح الدین فطرت نے پاکستان کا نام لئے بغیر اپنی سرزمین اور اس کی خودمختاری کی حفاظت کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’جیسا میں نے پہلے بھی کہا کہ ہم کسی کو نقصان پہنچانا نہیں چاہتے اور نہ ہی اجازت دیں گے کہ کوئی ہمیں نقصان پہنچائے۔ ہمارے لئے قابل قبول نہیں کہ کوئی دوسرا ملک ہماری فضائی حدود کی خلاف ورزی کرے۔ ہم ہمیشہ سفارت کاری کیلئے مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کریں گے، ہم ایسے واقعات میں حتی الامکان صبر کا مظاہرہ کرچکے ہیں۔‘

روئٹرز کے مطابق انہوں نے کہا کہ ’طیارہ شکن میزائل ملکوں کی ضرورت ہیں، بہت سے ممالک ان ہتھیاروں کو بنانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ فضائی اور زمینی حدود پر قابو رکھ سکیں۔ ہمارا ملک بھی اس مسئلے سے دوچار ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم طیارہ شکن میزائل حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

اگست 2021 میں افغانستان میں طالبان کے اقتدار کے بعد سے پاکستان میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے حملوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کے مطابق سال 2022 میں ملک میں 262 دہشت گرد حملے ہوئے جس میں سے کم از کم 89 ٹی ٹی پی نے کیے۔

گزشتہ نومبر ٹی ٹی پی نے پاکستانی حکام کے ساتھ مذاکرات میں ناکامی کے بعد یکطرفہ طور پر جنگ بندی ختم کردی تھی۔ جس کے بعد ملک میں حملوں کا سلسلہ شروع ہوا جس میں زیادہ تر پولیس اور سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا۔ جو تاحال جاری ہے۔

انٹرویو کے دوران جب خواجہ آصف سے پوچھا گیا کہ کیا وہ افغان طالبان کے اس دعوے پر یقین رکھتے ہیں کہ ٹی ٹی پی افغان سرزمین سے کام نہیں کر رہی ؟ تو خواجہ آصف نے کہا کہ ”وہ اب بھی انہی کی سرزمین سے کام کر رہی ہے۔“

وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے دعویٰ کیا کہ حالیہ انتباہ کا طالبان قیادت نے ”بہت اچھا جواب دیا۔“

خواجہ آصف کا کہن اتھا کہ انہیں یقین ہے امریکی قیادت میں اتحادی فوجیوں کے خلاف لڑائی میں حمایت حاصل کرنے کے بعد اب افغان طالبان خود کو ٹی ٹی پی سے دور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

گزشتہ سال اپریل میں پاکستان نے مشرقی افغانستان میں ٹی ٹی پی کے ایک ٹھکانے پر حملے کا دعویٰ کیا تھا۔ تاہم اس آپریشن پر افغان طالبان کی جانب سے سخت ردِعمل آیا تھا۔

خواجہ آصف نے کہا ہے کہ وہ امید کرتے ہیں پاکستان کی سلامتی کو خطرہ اس پوائنٹ تک نہیں بڑھے گا کہ ہمیں کچھ ایسا کرنا پڑے جو کابل میں ہمارے پڑوسیوں اور بھائیوں کو پسند نہیں ہوگا۔

وزیرِدفاع نے انٹرویو میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان اور سابق فوجی اور انٹیلی جنس قیادت پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے عسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکرات جاری رکھنے کے لیے ہزاروں طالبان جنگجوؤں اور ان کے خاندانوں کو پاکستان آنے اور انٹیلی جنس رپورٹ کے مطابق دہشت گردوں کو دوبارہ منظم ہونے کی اجازت دی۔

البتہ عمران خان نے ؤائس آف امریکہ کو ہی دیئے گئے ایک حالیہ انٹرویو میں اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کے پاس زیادہ آپشنز نہیں تھے۔

عمران خان نے کہا تھا کہ کیا ہمیں جنگجوؤں کو قطار میں کھڑا کرکے گولی ماردینی چاہیے تھی یا ہمیں ان کے ساتھ مل کر انہیں دوبارہ آباد کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تھی؟

خواجہ آصف کے بقول، ٹی ٹی پی امریکی فوجیوں کے چھوڑے ہوئے ہلکے ہتھیار، اسالٹ رائفلز، گولہ بارود، نائٹ ویژن چشمے اور اسنائپر رائفلز استعمال کر رہی تھی۔

پاکستان نے سال 2014 اور 2017 میں دہشت گردوں کے خلاف دو بڑے فوجی آپریشن کیے تھے اور اب ایک مرتبہ پھر پاکستان ایک جامع منصوبہ بندی پر غور کر رہا ہے جس میں افغانستان کی سرحد سے متصل علاقوں میں ممکنہ فوجی آپریشن بھی شامل ہے۔

گزشتہ روز وزیر داخہ رانا ثناءاللہ نے آج نیوز کے پروگرام اسپاٹ لائٹ میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ خیبرپختونخوا میں روزانہ کی بنیاد پر انٹیلی جنس آپریشن جاری ہیں۔

afghanistan

Khawaja Asif

Defence Minister

Afghan Army Chief

Qari Fasihuddin Fitrat

TTP Hide outs