امریکی محکمہ خارجہ نے ہزاروں افغان مہاجرین کو بدتمیز اور ناشکرا قرار دے دیا
افغانستان میں طالبان کے کنٹرول کے بعد امریکا لے جائے جانے والے افغان پناہ گزینوں پر اپنے ’محسنوں‘ کے ساتھ نسل پرستانہ اورجنسی تعصب رکھنے کا الزام عائد کردیا گیا۔ کہا جارہا ہے کہ ان میں سے کچھ نے عملے کو زبانی گالیاں دیں اور خود کو دی جانے والی رہائش گاہ پر بھی ناک بھوں چڑھائی۔
یہ دعوے امریکی محکمہ خارجہ کی ایک رپورٹ میں سامنے آئے ہیں جس میں گزشتہ سال اور 2021 میں لائے گئے تقریبا 73 ہزار افغان مہاجرین کی بازآبادکاری کا جائزہ لیا گیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق ایجنسیوں کو ’افغان پلیسمنٹ اینڈ اسسٹنس پروگرام‘ کے تحت افغان مہاجرین کی پے درپے آمد، وبائی امراض،رہائش اور ثقافتی رجحانات سمیت بہت سے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔
ایجنسیوں نے کچھ لوگوں کے ’نامناسب رویے‘ کی بھی نشاندہی کی، جس کی وجہ انہوں نے ثقافتی شعور کی کمی کو قرار دیا۔رپورٹ میں وضاحت کی گئی ہے کہ عملے کو افغان پناہ گزینوں کی کی جانب سے نسل پرستی اور جنسی تفریق کا سامنا کرنا پڑا جو امریکی معاشرے کے اصولوں کے عادی نہیں تھے۔ خواتین یا اقلیتی گروہوں سے تعلق رکھنے والے کئی افراد نے کیس منیجرز کو کام کرنے سے بھی انکار کر دیا۔
ایک ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ، “کچھ مقامی دفاتر کو اس عمل سے پریشان یا مایوس افغانوں کی طرف سے زبانی بدسلوکی کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔“ؔ
رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ امریکا لے جائے جانے والے بہت سے پناہ گزینوں کی توقعات بہت زیادہ تھیں اور وہ مقامی ملحقہ اداروں کے کردار کو نہیں سمجھتے تھے اور خدمات اور رہائش سے مایوس تھے۔ ان میں سے کچھ نے ’غیرحقیقی توقعات‘ وابستہ کیں ، مثلاً کئی گروہوں کو بتایا گیا تھا کہ امریکی سرزمین پر قدم رکھتے ہی انہیں خوش آمدید کہتے ہوئے رقم (الاؤنس) دی جائے گی۔
بہت سے افراد نے فراہم کی جانے والی رہائشگاہ کے حوالے سے بھی غیرحقیقی توقعات وابستہ کررکھی تھیں اور کئی ایسے گھروں میں قیام کی پیشکش کو مسترد کیا جنہیں وہ ناقص معیار کا حامل سمجھتے تھے۔
کچھ لوگ جن کے پاس افغانستان میں بطور پروفیشنل اچھی ملازمتیں تھیں یا جن کے پاس اعلیٰ تعلیمی ڈگریاں تھیں، ان کا خیال تھا کہ انہیں ان کے مخصوص شعبوں میں اچھے عہدوں پر تعینات کیا جائے گا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان افراد کی آبادکاری ایک بے مثال اور مطالبہ کرنے والی کوشش تھی جس سے اس پروگرام پر عمل درآمد کرنے والی ایجنسیوں کو کافی چیلنجز درپیش رہے
تازہ ترین رپورٹ ان سابقہ رپورٹس سے کہیں زیادہ مثبت ہے جو ماضی میں افغان انخلا کے لیے جانچ پڑتال کے عمل کو غلط قرار دیتی تھیں اور یہاں تک بتاتی تھیں کہ اس اسکیم کے تحت ’برے عناصر‘ یا قومی سلامتی کے خطرات ملک میں داخل ہو سکتے ہیں۔
افغانستان میں بے شمار شہریوں کو بچانے والے ایک ریٹائرڈ میرین نے قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی کی جانب سے افغانستان سے 2021 میں امریکی انخلا کی وضاحت پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اسے ’قومی المیہ‘ قرار دیا ہے۔
Comments are closed on this story.