بلی والے شیخ کی نماز ہوئی یا نہیں؟ سوشل میڈیا پر سوالات اٹھا دئے گئے
گزشتہ چند دنوں سے سوشل میڈیا پر ایک وہڈیو وائرل ہو رہی ہے ، جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ نمازِ تراویح کے دوران ایک بلی امام کے کندھے پر چڑھ کر بیٹھ جاتی ہے۔ امام اس بلی کو سہلاتے اور چومتے ہیں لیکن قرات بھی جاری رکھتے ہیں۔
مذکورہ ویڈیو الجزائر کے شیخ ولید مھساس کی ہے بلی کے اچانک ان پر چڑھنے اور محبت کے مناظر کو جہاں نگاہِ ستائش سے دیکھا جارہا ہے، وہیں اس پر ایک سوال بھی اٹھا دیا گیا ہے کہ کیا شیخ ولیس مھساس کی نماز ہوئی ہوگی؟
العریبیہ کے مطابق لوگوں نے سوال پوچھا کہ بلی کے امام صاحب پر چڑھنے، انہیں چاٹنے اور امام صاحب کے بلی کو پیار کرنے کے باوجود کیا نماز درست ہو جائے گی؟
اس کے ساتھ ساتھ یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ بلی کے جسم کو چھونے کے بعد شیخ ولید مھساس کا وضو ٹوٹ تو نہیں گیا؟
تاہم، مصری دارالافتاء نے قاھرہ کی ویب سائٹ ”24“ کو دئے گئے بیان میں اس کی قضاحت کی ہے۔
مصری دارالافتاء کا کہنا ہے کہ ’جمہور فقہا کے نزدیک گھریلو بلیاں خالص ایسے جانور ہیں جن کو پالنا اور انہیں اپنی ملکیت میں رکھنا جائز ہوتا ہے۔‘
مصری دار الافتاء نے بلیوں کی پاکیزگی کا حوالہ احادیث مبارکہ کی معروف سنن اربعہ یعنی ترمذی، ابو داؤد ، ابن ماجہ اور نسائی چار کتابوں سے دیا۔
جن میں موجود حدیث شریف میں کبشہ بنت کعب بن مالک سے روایت ہے کہ وہ ابن ابی قتادہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ تھیں۔
“ کبشہ بنت کعب نے کہا کہ ابو قتادہ ان کے پاس آئے تو میں نے ان کے لیے وضو کا پانی تیار کیا۔ پھر ایک بلی پینے آئی تو انہوں نے پیالہ اس کی طرف کر دیا یہاں تک کہ بلی نے پیالے سے پانی پیا۔ انہوں نے مجھے دیکھا کہ میں ان کی طرف متوجہ ہوں تو انہوں نے کہا اے بھتیجی آپ کو تعجب ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یہ (بلی ) نجس نہیں ہے۔ یہ تو ان جانوروں میں سے ہے جو تمھارے گھروں میں بکثرت آتے جاتے ہیں۔“
اسی حدیث مبارکہ کی بنیاد پر فقہ کی کتابوں میں درج ہے کہ بلی کا جھوٹا ناپاک نہیں ہوتا کیونکہ یہ بکثرت گھروں میں آنے جانے والا جانور ہے اور اس سے بچنا مشکل ہوتا ہے۔
دورانِ نماز بلی کو پیار کرنے کے حوالے سے علما کرام کا کہنا ہے کہ نماز کے دوران نماز کے منافی کوئی کام اس حد تک کیا جائے کہ اس پر ”عمل کثیر“ کا اطلاق ہو جائے تو نماز ٹوٹ جائے گی۔
فقہ کی کتابوں میں عمل کثیر کے تعین کی مختلف صورتیں درج ہیں۔
اس حوالے سے مختلف اقوال بیان کیے جاتے ہیں۔
ایک قول کے مطابق نماز کے کسی ایک رکن میں نماز کے منافی کام مسلسل تین مرتبہ کرلیا تو یہ عمل کثیر ہے۔
ایک قول یہ ہے کہ جو کام دو ہاتھوں سے کیے جاتے ہیں ایسا کام کرنا عمل کثیر ہے چاہے ایسے کام کو کوئی ایک ہاتھ سے بھی کرے۔
تاہم ایک تیسرا قول ہے جو راجح اور مفتی بہ ہے کہ عمل کثیر ایسا کام ہے کہ دور سے دیکھنے والا اسے دیکھے تو سمجھے کہ یہ نماز میں نہیں ہے۔
اس طرح واضح ہے کہ بلی والے شیخ ولید مھساس کا عمل ایسا نہیں تھا جسے ”عمل کثیر“ قرار دیا جائے۔ لہذا یہ نماز اس حوالے سے بھی درست قرار پاتی ہے۔
Comments are closed on this story.