Aaj News

اتوار, دسمبر 22, 2024  
20 Jumada Al-Akhirah 1446  

الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم، پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات کرانے کا حکم

آئین و قانون الیکشن کمیشن کو تاریخ میں توسیع کی اجازت نہیں دیتا، فیصلہ
اپ ڈیٹ 04 اپريل 2023 03:34pm
سپریم کورٹ آف پاکستان
سپریم کورٹ آف پاکستان

پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کے التوا کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواست پر سپریم کورٹ نے پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات کرانے کا حکم دے دیا۔

پنجاب اور خیبر پختون خوا میں الیکشن مؤخر ہونے کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواست پر سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کا 22 مارچ کا فیصلہ کالعدم قراردے دیا ہے۔

چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے قرآن پاک کی آیات سے فیصلے کا آغاز کیا، اور فیصلہ سنایا کہ الیکشن کمیشن کےغیر قانونی فیصلے سے13روز ضائع ہوئے، آئین و قانون الیکشن کمیشن کو تاریخ میں توسیع کی اجازت نہیں دیتا۔

سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو 30 اپریل کو انتخابات کرانے کا شیڈول بحال کرنے کا حکم دے دیا ہے۔

سپریم کورٹ نے پنجاب میں الیکشن کا شیڈول بھی دے دیا

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں پنجاب انتخابات کا شیڈول بھی دیا ہے اور حکم دیا ہے کہ 14 مئی کو پنجاب اسمبلی کے انتخابات کرائے جائیں، ریٹرنگ افسران 10 اپریل کو امیدواروں کے کاغذات نامزدگی جمع کریں، حتمی فہرست 19 اپریل تک جاری کیے جائیں، انتخابی نشانات 20 اپریل کو جاری کریں اور 14 مٸی کو پنجاب اسمبلی کے الیکشن کی پولنگ کرائی جائے۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں حکم دیا ہے کہ انتخابات کا شفاف اور غیر جانبدار انعقاد کرایا جائے، پہلے مرحلے میں پنجاب میں الیکشن کیلٸے فنڈز فراہم کٸے جائیں، نگراں حکومت، آٸی جی، سیکیورٹی فراہمی کو یقینی بنائیں۔

فیصلے میں وفاقی حکومت کو حکم دیا گیا ہے کہ وفاقی حکومت کو 10 اپریل تک21 ارب روپے جاری کرے اور الیکشن کیلٸے ہرممکن سہولیات فراہم کرے، فنڈزجمع نہ کرانے پرعدالت مناسب حکم جاری کرے گی، پنجاب میں اضافی سیکیورٹی کیلٸے اقدامات اٹھائے جائیں، عدالتی حکم پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے۔

عدالتی فیصلے میں یہ بھی بتایا گیا کہ عدالت میں دیگر معاملات کو بھی اٹھایا گیا، عدالتی کاروواٸی چلانے سے 2 ججز نے معذرت کی، یکم مارچ کے حکم کی جانب بھی توجہ مبذول کرائی گئی، اختلافی نوٹ کی تفصیلات پر بھی توجہ مبذول کرائی گئی، فیصلہ 4،3 کا ہونے کی دلیل خلاف قانون ہے، اور جسٹس فائز فیصلے کا کسی زیرالتوا مقدمہ پر اطلاق نہیں ہوتا۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ گورنر خیبرپختونخوا کے وکیل کیس سے الگ ہو گٸے ہیں، خیبرپختونخوا کے الیکشن سے متعلق دوبارہ رجوع کیا جائے، اور خیبر پختونخوا کیلئے فنڈز کی کمی ہو تو عدالت سے رجوع کیا جائے۔

فیصلے پر پی ٹی آئی کے وکلا اور رہنماوں کی پریس کانفرنس

سپریم کورٹ کے حکم کے بعد تحریک انصاف کے وکیل بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ آج سپریم کورٹ نے پنجاب الیکشن سے متعلق فیصلہ سنادیا، عدالت نے آئینی فیصلہ سنایا ہے، آج پھر آئین کی بالادستی ثابت ہوگئی ہے۔

بیرسٹرعلی ظفر کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کا اکتوبر میں الیکشن کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا گیا، اور انتخابات اب 14مئی کو ہوں گے، میری نظرمیں اس سے واضح فیصلہ نہیں ہوسکتا۔

وکیل پی ٹی آئی نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن سے تعاون نگراں حکومت کی ذمہ داری ہے، عدالتی حکم کی نافرمانی کی گئی توعدالت ایکشن لے گی، الیکشن کمیشن کو سیکیورٹی سمیت دیگرسہولتیں فراہم کی جائیں گی۔

رہنما پی ٹی آئی فیصل چوہدری

پی ٹی آئی رہنما اور وکیل فیصل چوہدری کا کہنا تھا کہ جسٹس منیب کی جانب سے نظریہ ضرورت کو دفن کر دیا گیا، معزز ججز کا فیصلہ تاریخ میں لکھا جائے گا۔

فیصل چوہدری نے کہا کہ آج لیگی جتھے سپریم کورٹ پر حملہ آور ہوئے جو قابل مذمت ہے، عدالتیں ہماری ریڈ لائن ہیں، جس نے اسے کراس کیا اس سے سختی سے نمٹیں گے، ہم آئین اور قانون کے مطابق انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں، ہم کسی بھی غیر آئینی و غیرقانونی اقدام کا ساتھ نہیں دیں گے، الیکشن کمیشن کو انتخابات کیلئے فنڈز دیئے جائیں۔

پی ٹی آئی کے وکیل نے مزید کہا کہ بلاول نے اپنے نانا اور والدہ کے ساتھ غداری کی ہے، عدالتی حکم نہ ماننے پر یوسف رضا گیلانی کو گھر بھیجا گیا تھا، آج والا فیصلہ نہ ماننے والوں کو بھی گھر بھیجا جائے گا۔

فیصلے سے قبل سپریم کورٹ کا منظر

اس سے قبل چیف جسٹس کی بینچ میں شامل دیگر ججز ساتھ مشاورت مکمل ہوئی، اور کمرہ عدالت نمبر ایک میں 3 کرسیاں لگا ٸی گئیں، جب کہ عدالتی عملہ کورٹ روم میں موجود ہے۔

کسی بھی ممکنہ ناخوشگوار واقعے کے پیش نظر سپریم کورٹ کے باہر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے، پولیس، ایف سی اور رینجرز کی بھاری نفری عدالت کے باہر تعینات رہی۔

دوسری جانب وکلا کے ساتھ لیگی کارکنان کی بھی بڑی تعداد سپریم کورٹ کے باہر موجود رہے، جب کہ وکلا کی بڑی تعداد نے ہاتھوں میں بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے اور شدید نعرے بازی کا سلسلہ جاری رہا۔

وکلا کی بڑی تعداد کی آمد اور سیکیورٹی کے سخت انتظامات کے باعث وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ بھی مشکلات کا شکار ہوئے اور انہیں سپریم کورٹ کے داخلی راستے پر روک لیا گیا، تاہم اعظم نذیر تارڑ کے ساتھ موجود افراد نے سیکیورٹی اہلکار کو بتایا کہ یہ وزیر قانون ہیں، جس پر انہیں سپریم کورٹ جانے کی اجازت ملی۔

پی ٹی آئی کی درخواست پر فیصلہ کب محفوظ ہوا

پی ٹی آئی کی درخواست پر پنجاب اورخیبرپختونخوا انتخابات میں تاخیر سے متعلق اس مقدمے کا فیصلہ 6 سماعتوں کے بعد گزشتہ روز محفوظ کیا گیا تھا۔

چیف جسٹس سمیت انتخابات کیس بنچ کے تینوں ارکان نے آج بینچز میں معمول کے مقدمات کی سماعتیں مکمل کیں، چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر الگ الگ بینچز میں تھے، تینوں ججز معمول کے مقدمات کی سماعت مکمل ہونے کے بعد اپنے چیمبرز میں پہنچے۔

وزارت دفاع کی سربمہررپورٹ سپریم کورٹ میں جمع

ذرائع کے مطابق وزارت دفاع نے آج عدالتی حکم پر سپریم کورٹ میں تحریری مواد جمع کروا دیا ہے۔ یہ رپورٹ سربمہر لفافے میں جمع کروائی گئی ہے۔

رپورٹ میں انتخابات میں فورسز کی تعیناتی کے حوالے سے تفصیلات کے علاوہ سیکیورٹی کی عدم فراہمی کی وجوہات پرمبنی تفصیلات بھی شامل ہیں۔

گزشتہ روز کی سماعت

جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے گزشتہ روز کیس کی سماعت کی، اس دوران سپریم کورٹ میں انہی افراد کو داخلے کی اجازت تھی جن کے مقدمات زیر سماعت تھے۔

وفاقی حکومت نے انتخابات التوا کیس میں اپنا جواب جمع کراتے ہوئے پی ٹی آئی کی درخواست مسترد کرنے کی استدعا کرتے ہوئے موقف اختیارکیا تھا کہ یکم مارچ کا سپریم کورٹ کا فیصلہ اکثریت سے دیا گیا، تین رکنی بینچ متبادل کے طور پرتحریک انصاف کی درخواست پرسماعت نہ کرے۔

حکومت کی جانب سے کہا گیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسی کے فیصلے کے بعد پی ٹی آئی درخواست مؤخر کی جائے، سپریم کورٹ کے جو ججز الیکشن کیس کو سن چکے ہیں، انھیں نکال کر باقی ججز پر مشتمل بینچ بنایا جائے، پہلے راؤنڈ میں دیا گیا الیکشن کا فیصلہ چار تین کی اکثریت سے دیا گیا۔ جسٹس اعجاز الاحسن پہلے راؤنڈ میں کیس سننے سے انکار کرچکے ہیں، چیف جسٹس اور جسٹس منیب اختر فیصلہ دینے والے بینچ کا حصہ تھے، اس لیے وہ بھی اس کیس کو نہ سنیں۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے ملک میں سیاسی مذاکرات نہیں ہو رہے، وفاقی حکومت نے ایسا کوئی مواد نہیں دیا جس پر الیکشن ملتوی ہوسکیں، حائل رکاوٹوں سے بھی آگاہ نہیں کیا گیا، الیکشن کا معاملہ آئین میں واضح ہے، حکومت اور فریقین نے درست معاونت نہیں کی، ماحول ٹھنڈا کرنے میں اٹارنی جنرل نے مدد نہیں کی، یہ ایشو پارلیمنٹ کوخود حل کرنا چاہیے تھا۔

سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے روسٹرم پرآکر کہا یکم مارچ کا فیصلہ چارتین کے تناسب سے ہے، فل کورٹ بینچ تشکیل دیا جائے، الیکشن کمیشن کے پاس تاریخ آگے بڑھانے کا اختیار ہے، چیف جسٹس نے کہا فل کورٹ کو بعد میں دیکھ لیں گے استدعا مسترد نہیں کی، وفاقی حکومت انتخابات کرانے کی یقین دہانی کرائے تو کچھ سوچا جاسکتا ہے۔

عدالت نے دلائل مکمل ہونےکے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔

چیف جسٹس نے اپنے آخری ریمارکس میں کہا کہ انتخابات کی راہ میں حائل رکاوٹوں سے بھی آگاہ نہیں کیا گیا، عدالت نے توازن قائم کرنا ہوتا ہے، حکومت اور دیگر فریقین کی درست معاونت نہیں ملی، اور حکومت نے الیکشن کرانے کی آمادگی ہی نہیں ظاہر کی۔ماضی میں عدالت اسمبلی کی تحلیل کالعدم قرار دے چکی ہے، ماضی میں حالات مختلف تھے، رکاوٹوں سے آگاہ کرنے کی ذمہ داری وفاقی حکومت کی تھی۔

انتخابات کیس میں کتنی سماعتیں ہوئیں؟

پنجاب اور خیبر پختونخوا انتخابات کیس میں سپریم کورٹ میں 6 سماعتیں ہوئیں، پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف آئینی درخواستیں دائر کی تھیں۔

پی ٹی وکیل علی ظفر اور الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر اور سجیل سواتی نے دلائل مکمل کیے جبکہ گزشتہ روز اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان، ایڈوکیٹ جنرلز پنجاب اور کے پی نے بھی دلائل دیے تھے۔

عدالت نے حکمران اتحاد پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ن اور جے یو آئی وکلاء کو سنے سے انکار کردیا تھا۔

31 مارچ کا حکم نامہ

دوسری جانب 31 مارچ کی سماعت کے حکم نامے میں جسٹس جمال مندوخیل کی بینچ سے علیحدگی اور فل کورٹ بنانےکے حکومتی مطالبے کا ذکر ہی نہیں کیا گیا۔

سپریم کورٹ نے اپنے حکم نامے میں الیکشن کمیشن کی جانب سے عرفان قادر کا نام بطور وکیل بھی شامل نہیں کیا، مسلم لیگ ن کے وکیل اکرم شیخ اورپیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک کا نام بھی شامل نہیں کیا گیا۔

سپریم کورٹ کا بینچ ٹوٹ گیا

اکتیس مارچ کو انتخابات سے متعلق کیس کی ہونے والی سماعت میں سپریم کورٹ کا 4 رکنی بینچ بھی ٹوٹ گیا تھا، جس کے بعد چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے 3 رکنی بینچ تشکیل دیا تھا۔

3 رکنی بینچ میں چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کے علاوہ جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اخترشامل تھے۔

دوران سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا تھا کہ کل اور آج 2 ججز نے سماعت سے معذرت کی، ججز کے آپس میں تعلق اچھے ہیں، اعتراف اور شائستہ گفتگو پہلے اور بعد میں بھی ہوئی۔

چیف جسٹس نے مزید کہا تھا کہ کچھ نقاط پر ہماری گفتگو ضروری ہے، سیاسی معاملات پر میڈیا اور پریس کانفرنسز سے تیل ڈالا گیا، عدالت نے سارے معاملے پر تحمل کا مظاہرہ کیا، کچھ لوگ چند ججز پر تنقید کررہے ہیں، ہم اس معاملے کو بھی دیکھیں گے۔

بعدازاں سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت پیر ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کردی تھی۔

اس سے قبل پنجاب اور خیبر پختونخوا کے انتخابات میں التوا کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواست پر چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 5 رکنی لارجر بینچ 3 روز سے سماعت کررہا تھا۔

30 مارچ بروز جمعرات کو چوتھی سماعت پر 5 رکنی لارجر بینچ کے رکن جسٹس امین الدین بینچ سے الگ ہو گٸے تھے جس کے بعد سپریم کورٹ نے سماعت جاری رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔

پانچوں سماعت پر جسٹس جمال مندوخیل نے بھی کیس سننے سے معذرت کرلی تھی۔

پی ٹی آئی درخواست کی سماعت کا بینچ اب تک 2 بار ٹوٹ چکا ہے، گزشتہ سماعت پر سپریم کورٹ کے بینچ نے اٹارنی جنرل کی فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد کی تھی۔

حکومتی اتحاد کا عدالتی فیصلے کے بائیکاٹ کا اعلان

حکومتی اتحاد نے فل کورٹ نہ بنائے جانے کی صورت میں سپریم کورٹ ممکنہ فیصلے کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا۔

یکم اپریل کو ہونے والے اجلاس کے بعد حکومتی اتحادی جماعتوں کے اعلامیے میں حکومتی اتحاد نے تین رکنی بینچ پر عدم اعتماد کا اظہار کیا اور مطالبہ کیا کہ چار رکنی اکثریتی فیصلے کو مانتے ہوئے موجودہ عدالتی کارروائی ختم کی جائے۔

CJP

اسلام آباد

justice umer ata bandiyal

Supreme Court of Pakistan

punjab kpk election

Politics April 4 2023