Aaj News

پیر, دسمبر 23, 2024  
20 Jumada Al-Akhirah 1446  

کیا پاکستان مارشل لاء کی جانب بڑھ رہا ہے؟

آئینی بحران تمام صورتوں میں ناگزیر ہے
شائع 01 اپريل 2023 11:27am
آرٹ ورک: سید معاذ/ آج نیوز
آرٹ ورک: سید معاذ/ آج نیوز

نو اپریل 2022 کو جب تحریک انصاف سپریم کورٹ کی جانب سے ازخود نوٹس کے تحت دیے گئے فیصلے کے باوجود اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ میں تاخیر کر رہی تھی تو ایسی خبریں سامنے آئیں کہ وزیراعظم ہاؤس کے قریب قیدی گاڑیاں کھڑی کر دی گئی ہیں۔ تیزی سے ایسی افواہیں پھیلیں کہ یا تو حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کرے یا ملک مارشل لاء کی طرف بڑھتا دکھائی رہا ہے۔ ریاست کے دو ستونوں یعنی ایگزیکٹو اور عدلیہ کے درمیان ڈیڈ لاک بالآخر غیر آئینی مداخلت کا باعث بنا۔

تحریک انصاف کو شکست ہوئی اور عمران خان کو عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعہ ہٹا دیا گیا۔

تقریبا ایک سال بعد سپریم کورٹ ایک ایسے کیس کی سماعت کر رہی ہے جو اصل میں ازخود نوٹس سے شروع ہوا تھا اور ممکنہ طور پر ایگزیکٹو یعنی وزیر اعظم شہباز شریف یا ان کی حکومت کو توہین عدالت کا مرتکب قرار دے سکتا ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے لارجربینچ سے2 ججز کے علیحدہ ہونے اور حکومت کی جانب سے فل کورٹ بنانے کی درخواست کے باوجود الیکشن میں تاخیر کے خلاف تحریک انصاف کی درخواست پر سماعت روکنے سے انکار کردیا ہے۔

اگر سپریم کورٹ 30 اپریل کو انتخابات کے لیے دباؤ ڈالتی ہے اور ایگزیکٹو اسی طرح اپنے پیروں کو کھینچتی ہے جیسے عمران خان حکومت نے ایک سال پہلے کیا تھا، تو ہم بالکل 9 اپریل والی صورتحال پر واپس آ جائیں گے۔

 9 اپریل 2022 کو عمران خان وزیراعظم ہاؤس سے رخصت ہوئے۔ فوٹو ٹوئٹر

عدلیہ اورایگزیکٹومدمقابل آجائیں تو کیا ہوتا ہے

پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع نہیں ہے جب انتظامیہ اور عدلیہ میں اس بات پر اختلاف ہوا ہو کہ کس کی چلے گی۔ آئین کے آرٹیکل 190 کے تحت ”پورے پاکستان میں تمام انتظامی اور عدالتی حکام“ کو ”سپریم کورٹ کی مدد کے لئے کام کرنے“ کی ضرورت ہے۔ لیکن عملی طور پر اداروں نے ماضی میں اپنے فیصلے خود کیے۔

تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تعلقات کے معیار پر منحصر ہے کہ اداروں نے یا تو سپریم کورٹ کے حق میں مداخلت کی ہے اور جب بھی ایسا ہوا تو وزیر اعظم کو جھکنا پڑا۔۔۔۔ یا ثالث کا کردار ادا کیا لیکن ثالثی صرف اس وقت کارگر ثابت ہوئی جب سپریم کورٹ نے راستہ دیا۔ اگر پس پردہ مداخلت یا ثالثی کے لئے کافی وقت نہیں تھا، تو فوج کے اقتدار سنبھالنے اور آئین کو معطل کرنے کی شکل میں ایک کھلی رکاوٹ آئی۔ شکایت نہ کرنے والے ججز کو غیرمعمولی طریقے سے چھوڑنے پرمجبور کیا گیا۔

آئین کو معطل کیا جانا چاہیے یا اسے عارضی معطل کر دینا چاہیے جیسا کہ ڈکٹیٹر اسے کہنا چاہتے ہیں کیونکہ اس میں فوجی حکمرانی کا کوئیک تذکرہ نہیں ہے۔

موجودہ حکومت کیا کرسکتی ہے

آئین بھی سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد سے انکار کرنے والی حکومت کو حل پیش نہیں کرتا ہے۔ ایک حکومت جو سب سے بہتر کرسکتی ہے وہ یہ ہے کہ عدالتی احکامات پرعمل درآمد کو زیادہ سے زیادہ دیر تک مؤخر کیا جائے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے 2010 سے 2012 کے درمیان یہی کیا جب سپریم کورٹ نے اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو حکم دیا تھا کہ وہ صدر آصف علی زرداری کے خلاف سوئس حکام کو خط لکھیں۔

یوسف رضا گیلانی یہ خط لکھنے سے ہچکچا رہے تھے کیونکہ ان کا خیال تھا کہ ملک کا صدر ہونے کے ناطے آصف زرداری کو آئینی استثنیٰ حاصل ہے اور صدر کے خلاف خط لکھنا قانون کے خلاف ہے۔ سپریم کورٹ کے ججز نے یقینناً اسے کچھ اور طرح سے ہی دیکھا۔

 یوسف رضا گیلانی کو 2012 میں نااہل قرار دیا گیا تھا لیکن انہوں نے اپنی جماعت کو 2 سال فراہم کیے۔ فوٹو اے ایف پی فائل

عدالتن نے 2009 میں خط لکھنے کا حکم جاری کیا لیکن گیلانی نے اس پر عمل کرنے سے انکار کر دیا۔ بالآخر فروری 2012 میں ان پر توہین عدالت کا الزام عائد کیا گیا اور جون 2012 میں اگلے 5 سال کے لیے کسی بھی عوامی عہدے کے لیے نااہل قرار دے دیا گیا۔

گیلانی نے خود پارلیمنٹ سے پانچ سال تک باہر رہنے کی قیمت پر اپنی پارٹی کو دو سال کا وقت دیا۔ موجودہ صورت حال میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو 17 ستمبر کو جسٹس فائز عیسیٰ کے چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالنے تک یہ معاملہ صرف ساڑھے پانچ ماہ ٹالنے کی ضرورت ہے۔

لہٰذا، حکومت انتخابات کے انعقاد کے معاملے کو پس پشت ڈالنا جاری رکھ سکتی ہے خاص طور پر اگر اسے سپریم کورٹ کے حق میں مداخلت کا خوف نہ ہو۔

لیکن کیا سپریم کورٹ ایسا ہونے دے گی؟ سپریم کورٹ حکومت کی قانونی حیثیت کو خطرے میں ڈالتے ہوئے سخت حکم جاری کر سکتی ہے۔ اس طرح کے اقدام سے ایک بحران پیدا ہوسکتا ہے جس کے لئے بالآخر ادارے کی مداخلت کی ضرورت ہوتی ہے۔

دریں اثناء پی ٹی آئی سپریم کورٹ کی حمایت میں سڑکوں پر اترنے کا ارادہ رکھتی ہے جس سے امن وامان کی صورتحال ہوسکتی ہے۔

مارشل لاء کا نفاذ

ہم اس امکان سے انکار نہیں کر سکتے کہ امن و امان کو کنٹرول کرنے اور حالات کو معمول پر لانے کے لئے مداخلت ناگزیر ہو جائے گی، لیکن یہ ایک مشکل انتخاب ہوگا۔ پاکستان میں اب تک کسی کو بھی درپیش آنے والی سب سے مشکل صورتحال۔

اس کے ملکی اور بین الاقوامی دونوں طرح کے اثرات ہیں۔

پاکستان کو شدید معاشی بحران کا سامنا ہے اور اسے پہلے ہی بین الاقوامی حمایت خصوصا زرمبادلہ کی صورت میں اشد ضرورت ہے۔

 2016 کی یہ تصویر برطانیہ میں لیورپول کنٹینرٹرمینل کو ظاہر کرتی ہے۔ امریکا اور یورپی یونین پاکستانی برآمدات کے لیے اہم مقامات ہیں۔ روئٹرز

فوجی حکمرانی تمام راستے بند کرتے ہوئےصورتحال کو بدتربنا دے گی۔ مغربی ممالک پاکستان کی برآمدات روکنے کے لیے مالی پابندیاں عائد کرسکتے ہیں۔ ڈالر کی آمد بھی بند ہوجائے گی۔

ممکن ہے حکومت معاشی بحران سے نہ بچ سکے۔

داخلی محاذ پر جو کوئی بھی مارشل لاء نافذ کرے گا وہ خود کو اندھی گلی میں پائے گا کیونکہ 18 ویں آئینی ترمیم کے بعد کوئی بھی عدالت اس طرح کے اقدام کی توثیق نہیں کرسکتی۔

ماضی میں فوجی حکمرانوں نے آئین معطل کیا اور پھر عدالتوں سے اپنے اقدامات کی توثیق کروائی۔ اس طرح انہوں نے آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت سنگین غداری کے الزام اور سزا سے گریز کیا۔ تاہم 18 ویں ترمیم کے ذریعے آرٹیکل 6 میں شامل شق 2 اے میں کہا گیا ہے کہ ’شق (1) یا شق (2) میں بیان کردہ سنگین غداری کے عمل کی سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ سمیت کوئی بھی عدالت توثیق نہیں کرے گی۔‘

یہ بین الاقوامی پابندیوں کے خطرے کے ساتھ مل کر ایک کھلے مارشل لاء یا فوجی حکمرانی کے امکان کو کم کرتا ہے جہاں ججز پراثرانداز ہوا جاسکتا ہے یا انہیں گھربھیجا جاسکتا ہے۔

اگرمارشل لاء نہ لگا تو پھر کیا ہوگا؟

لہٰذا پاکستان شاید مارشل لاء کی طرف نہ بڑھ رہا ہو لیکن یہ آئینی بحران کی طرف ضرور بڑھ رہا ہے۔

اگر سپریم کورٹ ہدایات جاری کرتی ہے لیکن کوئی ان پر عمل درآمد کے لئے تیار نہیں ہے تو افراتفری اور ٹوٹ پھوٹ ہوگی۔

پی ٹی آئی پہلے ہی کہہ رہی ہے کہ اس کے کارکنوں کو ریاستی جبر کا نشانہ بنایا گیا۔ عدالتوں کی بات نہ سننے کی وجہ سے بہت سے لوگوں کی زندگی مشکل ہو سکتی ہے، بھلے ہی اسے بین الاقوامی مذمت کی ضرورت ہو۔

دوسری جانب صدرعارف علوی کا تعلق پی ٹی آئی سے ہونے کی وجہ سے حکومت کے لیے قانونی اور آئینی دلدل سے نکلنا انتہائی مشکل ہوگا۔

چیف جسٹس عمرعطا بندیال کا کہنا ہے کہ اگلے پانچ ماہ میں حالات کیسے بدلتے رہیں گے اس کا انحصار صرف ایک شخص پر ہے۔ بظاہرلگتا ہے کہ وہ اپنی ساری کشتیاں جلا چکے ہیں۔

پاکستان

economy

Martial Law

Pakistan Politics