بھارتی مسلمانوں کو زندہ رہنے کیلئے کیاکچھ چھوڑنا پڑرہا ہے
**جب فرح خالد نے مارچ کے ایک خوشگوار دن اتوار کی دوپہر اذان کی آواز سنی اور بھوپال کے ایک مشہور سیاحتی مقام جانے کا سوچا تو ان کے شوہر نے انکار کردیا۔
ایک دیندار مسلمان، 36 سالہ گھریلو خاتون فرح نے اپنے شوہر جو کہ ایک اسٹاک بروکر ہیں، سے التجا کی، لیکن وہ نہیں مانے۔
فرح خالد نے شہر کے مضافات میں ہریالی میں گھرے 300 سال پرانے محل کے بارے میں بھارتی خبر رساں ادارے ”آرٹیکل 14“ سے بات کرتے ہوئے کہا ”میں نے اپنے شوہر سے کہا کہ میں کسی کی پریشانی یا تکلیف کا باعث نہیں بنوں گی۔ چمن محل اتنا بڑا ہے کہ کسی نے مجھے نماز پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا ہوگا۔“
انہوں نے کہا، ”میرے شوہر ہوشیار تھے کیونکہ آج کل سمارٹ فونز عام ہیں۔“
”انہیں ڈر تھا کہ کوئی نماز پڑھتے ہوئے میری ویڈیو شوٹ کر لے اور پولیس کے سامنے میری شکایت کر دے۔“
مسلمان عوامی مقامات جیسے ٹرینوں، ریلوے اسٹیشنوں اور اسپتالوں میں نماز ادا کرتے ہیں، اور ہمیشہ ہندوستان کے مذہبی اور ثقافتی طور پر متحرک منظرنامے کا حصہ رہے ہیں۔
لیکن بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اقتدار میں آنے کے بعد سے گزشتہ آٹھ سالوں میں ملک کی سب سے بڑی اقلیت پر مسلسل حملوں اور پابندیوں کے باعث ان کی تہذیب غائب ہوتی جارہی ہے۔
ہندو اکثریت پسندی کے باعث ہندوستانی مسلمانوں کو خود کو تبدیل کرنا پڑا، اس بارے میں انتہائی محتاط ہونا پڑا کہ وہ کیا کھاتے ہیں، کہاں نماز پڑھتے ہیں، اور کیا کہتے ہیں، خاص طور پر عوامی جگہوں پر۔
باون سالہ محمد اخلاق جنہیں ستمبر 2015 میں، مئی 2014 میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے ایک سال بعد، گائے کا گوشت کھانے کے شبہ میں ایک ہندو ہجوم نے تشدد کرکے ہلاک کر دیا تھا۔ اس کے بعد سے گائے کے تحفظ کے نام پر مسلمانوں کو مارنا معمول بن گیا ہے۔
مختلف جگہوں پر مسلمانوں پر عوامی جگہ پر نماز ادا کرنے اور گائے کا گوشت لے جانے یا کھانے کے شبہ میں حملے کئے گئے۔
اتر پردیش میں، جہاں بی جے پی برسراقتدار ہے، جولائی 2022 میں لکھنؤ کے لولو مال میں 11 مسلم مردوں کی نماز ادا کرنے کی ویڈیو سامنے آنے کے بعد سات افراد کو گرفتار کیا گیا تھا، یہ ویڈیو دائیں بازو کی تنظیم اکھل بھارت ہندو مہاسبھا کے ایک رکن نے بنائی تھی۔
ان پر تعزیرات ہند، 1869 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا، جس میں سیکشن 153 اے (مذہبی جذبات کو مشتعل کرنے کا مقصد) ، 295 اے (جان بوجھ کر اور بدنیتی پر مبنی اعمال، الفاظ کے ذریعے، کہے گئے یا لکھے گئے یا اشاروں سے یا ظاہری نمائندگی کے ذریعے کسی بھی طبقے کے مذہب یا مذہبی عقائد کی توہین)، 341 (کسی بھی شخص کو غلط طریقے سے روکنا) اور 505 (عوامی فساد کو ہوا دینے والے بیانات) کی دفعات شامل کی گئیں۔
فرح خالد کہتی ہیں کہ، ”شاید، لکھنؤ کے مال میں ہونے والے واقعے نے میرے شوہر کے ذہن میں خوف پیدا کر دیا، اور انہوں نے مجھے عوامی مقام پر نماز پڑھنے سے روک دیا۔“
اسی ہفتے جب فرح خالد چمن محل گئیں، مدھیہ پردیش کی بی جے پی حکومت نے اس محلے کا نام بدل کر اسلام نگر سے جگدیش پور رکھ دیا ہے۔
قیمہ پراٹھے یا آپ کی زندگی
بھوپال میں ایک میڈیا کمپنی کے 52 سالہ ایگزیکٹو شارق خان نے بتایا کہ سفر کے دوران قیمہ پراٹھا ان کی پسندیدہ ڈش تھی، لیکن اب وہ اسے آلو کے سالن کے ساتھ محفوظ طریقے سے کھاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ، ”نان ویجیٹیرین پکوان بہت سارے مسالوں کے ساتھ تیار کیے جاتے ہیں، اور اس لیے وہ خوشبودار ہوتے ہیں۔ آپ لنچ باکس کھولتے ہیں، اور خوشبو پھیل جاتی ہے۔“
”آپ کے آس پاس کے لوگ جانتے ہیں کہ آپ کے پاس مٹن یا چکن ہے۔ اگر آپ ایئر کنڈیشنڈ کوچ میں ہیں تو ہوا میں بو بہت نمایاں ہوتی ہے۔“
جنوری 2016 میں، مدھیہ پردیش کے ہردا ضلع میں گائے کے محافظوں نے ایک مسلمان جوڑے پر ٹرین میں گائے کا گوشت لے جانے کا الزام لگایا اور ان پر حملہ کیا۔
جولائی 2016 میں ٹرین میں سفر کرنے والی دو مسلم خواتین پر مدھیہ پردیش کے مندسور میں گائے کا گوشت رکھنے کا الزام لگایا گیا تھا اور ہجوم نے ان پر تشدد کیا تھا۔
جولائی 2022 میں، اتر پردیش کے مراد آباد ضلع میں پولیس نے ایک کھانے پینے کی دکان کے مالک طالب حسین کو ایک اخبار میں لپٹا ہوا چکن فروخت کرنے پر گرفتار کیا جس میں ہندو دیوتاؤں کی تصویریں تھیں۔
شارق کان نے بتایا کہ ”آپ ٹرین میں قیمہ پراٹھا کھا رہے ہوں۔ آپ کے ساتھی مسافروں میں سے کوئی خاموشی سے گائے کے محافظ گروپ کو اطلاع دے سکتا ہے کہ آپ کے پاس گائے کا گوشت ہے۔“
”اگلے اسٹیشن پر ایک ہجوم آپ کا انتظار کر رہا ہوگا۔“
انہوں نے کہا کہ زندگی قیمہ پراٹھا کھانے سے زیادہ قیمتی ہے۔
کانپور میں جانوروں کی کھالوں کا کاروبار کرنے والے 42 سالہ تاجر عرفان خان نے اس وقت کو یاد کیا جب یوپی میں ہائی وے پر ہندوؤں کی ملکیت والے ڈھابوں میں ایسے انتظامات تھے جہاں مسلمان مسافر نماز پڑھ سکتے تھے اور وہ بغیر کسی خوف کے گوشت کھاتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ”کیا یہ عجیب بات نہیں کہ آپ ریلوے اسٹیشنوں پر گوشت یا انڈے کے برتن خرید سکتے ہیں، لیکن مسلمان سفر کے دوران گھر کا پکا ہوا نان ویجیٹیرین کھانا نہیں کھا سکتے؟“
لکھنؤ میں ایک عیسائی صحافی نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ اور ان کے خاندان نے سفر کے دوران گوشت نہیں کھایا۔
انہوں نے کہا ”کیا ہجوم سنیں گے اگر میں ان سے کہوں کہ میں عیسائی ہوں اور مسلمان نہیں؟“
”کیا انہین فرق پڑے گا اگر میں انہیں بتاؤں کہ میں گوشت کھا رہا ہوں اور گائے کا گوشت نہیں؟“
بین المذاہب جوڑا بننے کا بدترین وقت
دہلی میں ایک 46 سالہ مسلمان سافٹ ویئر انجینئر، جنہوں نے ایک ہندو خاتون سے شادی کی ہے، کہتے ہیں کہ یہ ہندوستان میں بین المذاہب جوڑے بننے کا سب سے برا وقت تھا، جہاں انہیں معمول کی بات چیت کے خطرات کا جائزہ لینا پڑتا تھا جیسے کہ دعوتوں میں شرکت کرنا۔ پارٹی یا نئے لوگوں سے ملنا۔
انہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا، ”آج ہندوستان میں موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے، میں یہ کہوں گا کہ میں بین المذاہب شادی کے لیے راضی نہیں ہوتا۔“ آج مجھ پر ’لو جہاد‘ کا الزام لگایا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ ”میرے دفتر میں کوئی بھی نہیں جانتا کہ میری بیوی مختلف عقیدے سے تعلق رکھتی ہے۔“
جہاں دائیں بازو کے ہندوؤں نے مسلم مردوں کے بارے میں سازشی تھیوری کو مقبول بنایا ہے کہ وہ ہندو خواتین کو شادی کا لالچ دے رہے ہیں، وہیں بی جے پی کے زیرانتظام ریاستوں نے مختلف مذاہب کے لوگوں کے لیے شادی کرنا مزید مشکل بنانے کے لیے تبدیلی مذہب مخالف قوانین نافذ کیے ہیں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ ان کے تعلق کے بارے میں اس طرح کی خاموشی کی ضرورت کیوں ہے، حالانکہ وہ دارالحکومت میں رہتے ہیں، انہوں نے کہا، “مسلمانوں کے خلاف اتنا زہر اگلا جا رہا ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ اگر میرے سینئرز کو پتہ چل گیا کہ میں نے ایک ہندو عورت سے شادی کی ہے تو میری پروموشن اور تنخواہ میں اضافہ رک جائے گا۔ آپ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے نائب صدور کی سوشل میڈیا پوسٹس چیک کر سکتے ہیں، اور آپ دیکھیں گے کہ وہ کتنی ظالم سوچ رکھتے ہیں۔
کانپور کے ایک ہندی روزنامے کے صحافی کا کہنا ہے کہ جب ایک مسلمان مرد ہندو عورت سے شادی کرتا ہے تو ان کے اخبار کی سرخیوں میں ”لو جہاد“ کی اصطلاح حقیقت کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔ لیکن جب ایک ہندو مرد ایک مسلمان عورت سے شادی کرتا ہے، تو یہ داستان محبت کے بارے میں ہوتی ہے جو تمام مشکلات کے خلاف پروان چڑھی۔
بھوپال کی گھریلو خاتون فرح خالد نے کہا کہ ان کے شوہر اپنے دو مسلمان لڑکوں کو ہندو لڑکیوں کے ساتھ بات چیت کرنے سے روکتے ہیں ، یہاں تک کہ جب وہ ان خدشات کو ہنسی اور قہقہوں کے پیچھے چھپاتے ہیں تب بھی ان کا خوف واضح ہوتا ہے۔
”میرے بیٹے 12 اور آٹھ سال کے ہیں۔ انہیں اس عمر میں محبت یا شادی کا کیا پتہ۔ لیکن میرے شوہر انہیں کہتے رہتے ہیں کہ عقیدے سے باہر شادی کرنا ان کے ذہن میں نہیں آنا چاہیے۔ وہ ان سے کہتے ہیں کہ وہ ہندو لڑکیوں سے دوری بنائے رکھیں۔ اگرچہ وہ یہ بات مذاق اور قہقہوں میں یہ ظاہر کرنے کے لیے کہتے ہیں کہ وہ سنجیدہ نہیں ہیں، لیکن ان کا پیغام واضح ہے۔ وہ اپنی بات ذہن میں بٹھا رہے ہیں۔“
اسائنمنٹ کا انتخاب
اندور میں ایک مسلمان صحافی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے اپنی مخمصے کی وضاحت اس وقت کی جب انھیں ہندو روحانی پیشوا اور مبلغ دھیریندر شاستری کے بارے میں رپورٹ کرنے کے لیے کہا گیا، جو مدھیہ پردیش کے ضلع چھتر پور میں ایک مندر کے سربراہ ہیں، اور ان پر توہمات پھیلانے کا الزام لگایا گیا تھا۔
اگرچہ وہ اسٹوری کرنا چاہتے تھے، لیکن انہوں نے شائستگی سے اسائنمنٹ کرنے سے انکار کر دیا۔
انہوں نے کہا کہ اگر میں شاستری کے دعووں کے خلاف کوئی استوری کرتا تو مجھ پر ہندوؤں اور ہندومت پر حملہ کرنے کا الزام لگایا جاتا کیونکہ میں مسلمان ہوں۔
انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے ایسی کہانیوں کو رپورٹ کرنا بند کر دیا ہے جہاں کسی شخص کی مذہبی شناخت اس کے لیے اہم ہو۔
”فرض کریں کہ ہندو دولہے کو اونچی ذات کے ہندوؤں کی جانب سے گھوڑی پر سوار ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ اگر میں اس کے بارے میں لکھوں گا تو مجھے ٹرول کیا جائے گا۔ مجھ پر ہندو ذات کے نظام کے خلاف لکھنے کا الزام لگایا جائے گا کیونکہ میں مسلمان ہوں۔ اگر میں کسی مسلمان دکاندار کی پٹائی اس سے شناختی کاغذات دکھانے کے مطالبے کی اطلاع دیتا ہوں تو ٹرول کہیں گے کہ میں مسلمانوں کے حق میں لکھ رہا ہوں۔“
اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے کہ ہندو صحافی اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم اور حکام کے ذریعہ اختلاف رائے اور آزادی اظہار کے خلاف کریک ڈاؤن کی رپورٹ کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ مسلمان صحافی زیادہ کمزور ہیں۔
”اگر آپ مسلمان ہیں تو گرفتار ہونے کا خطرہ زیادہ ہے۔ اگر آپ مسلمان ہیں تو حکومت پوری کوشش کرتی ہے کہ آپ کو ضمانت نہ ملے۔ جس لمحے آپ کو ضمانت مل جاتی ہے، آپ کے خلاف مزید الزامات عائد کیے جاتے ہیں۔“
کیرالہ کے ایک مسلمان صحافی صدیق کپن 5 اکتوبر 2020 کو ایک دلت لڑکی کے ساتھ مبینہ اجتماعی عصمت دری کی کوریج کرنے کے لیے دہلی سے یوپی جا رہے تھے کہ انہیں گرفتار کر لیا گیا۔
ان پر تشدد کیلئے بھڑکانے کیلئے پاپولر فرنٹ آف انڈیا (PFI) کے ساتھ کام کرنے کا الزام ہے، اور ان پر دہشت گردی کے الزامات عائد کئے گئے ہیں۔ 43 سالہ صحافی کو 2 فروری 2023کو گرفتار کیے جانے کے چند دن بعد ضمانت پر رہا کیا گیا۔
نیویارک میں قائم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) نے 14 دسمبر کو جاری ہونے والی اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارت میں یکم دسمبر 2022 تک سات صحافی جیل کی سلاخوں کے پیچھے تھے۔ ان سات میں سے پانچ، آصف سلطان، منان ڈار، سجاد گل، فہد شاہ اور صدیق کپن مسلمان تھے۔
خوف کا سایہ
کانپور سے شائع ہونے والے 75 سالہ اردو روزنامے ”سیاست“ کے مدیر اور مالک ارشاد املی نے کہا کہ ”اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مسلمانوں میں خوف کا احساس ہے۔“
”میرے خیال میں مین اسٹریم میڈیا اور خاص طور پر ٹیلی ویژن میڈیا ایک بڑا کردار ادا کر رہا ہے۔“
دہلی کے سافٹ ویئر انجینئر کہتے ہیں کہ میں کبھی ٹوپی اور پٹھانی سوٹ میں ایک داڑھی والے آدمی کو اپنے محلے کے قریب رات کے وقت ایک تنہا سڑک پر سبزیوں کی گاڑی کو دھکیلتے دیکھتا ہوں تو ”مجھے لگتا ہے کہ میں اسے کہوں، آپ بہت کمزور ہیں۔ اپنی داڑھی منڈوائیں، ٹوپی اور پٹھانی سوٹ پہننا چھوڑ دیں اور شرٹ اور پینٹ پہننا شروع کر دیں۔“ **
Comments are closed on this story.