Aaj News

اتوار, نومبر 03, 2024  
01 Jumada Al-Awwal 1446  

الیکشن میں تاخیر : وفاق، الیکشن کمیشن اور گورنر کے پی کو نوٹسز جاری

عدالت نے شفاف انتخابات کیلئے پی ٹی آئی اورحکومت سے پرامن رہنے کی یقین دہانی مانگ لی
اپ ڈیٹ 27 مارچ 2023 03:23pm

تحریک انصاف کی انتخابات ملتوی کرنے کیخلاف درخواست پر سپریم کورٹ نے وفاق، الیکشن کمیشن اور گورنر کے پی غلامی علی کو نوٹس جاری کردیئے۔

سپریم کورٹ میں انتخابات ملتوی کرنے کیخلاف تحریک انصاف کی درخواست پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے درخواست پر سماعت کی۔

بینچ میں جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس جمال خان مندوخیل بھی شامل ہیں۔

پی ٹی آٸی کے وکیل بیرسٹرعلی ظفر روسٹرم پر آٸے اور دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبرپختونخواہ میں انتخات کرانے کا حکم دیا، جس کے بعد الیکشن کمیشن نے بھی انتخابات کا شیڈول جاری کیا۔

چیف جسٹس نے وکیل سے استفسار کیا کہ یہ شیڈول کب جاری ہوا؟۔

وکیل پی ٹی آئی نے جواب دیا کہ 8 مارچ کو الیکشن شیڈول جاری کیا گیا، سپریم کورٹ نے یکم مارچ کو انتخابات کی تاریخ دینے کا فیصلہ دیا، جب کہ گورنر کے پی نے عدالتی حکم عدولی کرتے ہوئے تاریخ کا اعلان نہیں کیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کی تاریخ میں توسیع کیسے غلط ہے آگاہ کریں۔

وکیل علی ظفر نے مؤقف پیش کیا کہ عدالتی حکم پر صدر نے 30 اپریل کی تاریخ مقرر کی، الیکشن کمیشن نے صدرکی دی گئی تاریخ منسوخ کردی، عدالتی حکم کی تین مرتبہ عدولی کی گئی، الیکشن کمیشن ازخودانتخابات کی تاریخ نہیں دےسکتا، دوسری خلاف ورزی90دن کے بعد انتخاب کی تاریخ دینےکی ہے، اگر فنڈز نہ ہونے کی بات مان لی جائے تو الیکشن کبھی نہیں ہوں گے۔

جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ فنڈزوفاقی حکومت نے جاری کرنے ہوتے ہیں یا صوباٸی حکومت نے۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ دونوں حکومتوں نے فنڈزجاری کرنے ہوتے ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ عدالت سے کیا چاہتے ہیں۔ وکیل علی ظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ آئین اور اپنے حکم پرعملدرآمد کرائے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ عدالتی حکم پرعملدرآمد ہائیکورٹ کا کام ہے۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ معاملہ صرف عدالتی احکامات کا نہیں، دو صوبوں کے الیکشن کا معاملہ ایک ہائیکورٹ نہیں سن سکتی، سپریم کورٹ اپنا اختیار استعمال کرتے ہوئے فیصلہ کرچکی ہے، سپریم کورٹ کا اختیار اب بھی ختم نہیں ہوا۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ کے حکم کے راستے میں الیکشن کمیشن کا فیصلہ رکاوٹ بنا، عدالت ہی بہتر فیصلہ کرسکتی ہے کہ احکامات کی خلاف ورزی ہوئی یا نہیں۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا عوام کے بنیادی حقوق کا معاملہ ہے، اس کی کیا گارنٹی ہے کہ اکتوبر میں سیکیورٹی صورتحال بہتر ہوگی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا الیکشن کمشن صدر کی دی گئی تاریخ کو ختم کرسکتا ہے، اس معاملے پر سپریم کورٹ کا کوئی فیصلہ نہیں، انتحابات صوبے کی عوام کے بنیادی حقوق کا معاملہ ہے، اہم ایشوزاس کیس میں شامل ہیں، فیصلے پر عملدرآمد بھی ایک معاملہ ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ملکی تاریخ میں الیکشن کی تاریخ بڑھانے کی مثالیں موجود ہیں، بے نظیر بھٹو کی شہادت پر بھی الیکشن تاخیر سے ہوئے، لیکن ان کی شہادت کے وقت تاریخ بڑھانے کو قومی سطح پرقبول کیا گیا، اور معاملے کو کہیں چیلنج نہیں کیا گیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ 1988میں نظام حکومت تبدیل ہونے کی وجہ سے الیکشن میں تاخیر ہوئی، کیا آئین میں نگراں حکومت کی مدت کے تعین کی کوئی شق موجود ہے۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ یہ معاملہ 90 روز میں الیکشن کروانے سے بھی منسلک ہے۔ جسٹس جمال مندو خیل نے استفسار کیا کہ کیا صدر کی تاریخ 90 روز میں تھی یا نہیں۔ وکیل علی ظفر نے کہا کہ نگران حکومت کا مقاصد انتخابات ہوتا ہے، جو 90 روزمیں ہونا ہیں، ایسا نہیں ہوسکتا کہ الیکشن 90 دن سے پانچ ماہ آگے کردیئے جائیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن کا مؤقف تھا وہ پولنگ کی تاریخ مقررنہیں کرسکتا، اب الیکشن کمیشن نے پولنگ کی نئی تاریخ بھی دے دی ہے۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ کے حکم پر تمام پانچ ججز کے دستخط ہیں، فیصلوں میں اختلافی نوٹ معمول کی بات ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن نے آرٹیکل 254 کا سہارا لیا ہے۔

وکیل علی ظفر نے کہا آرٹیکل 254 کا سہارا کام کرنے کے بعد لیا جا سکتا ہے، ایسا نہیں ہوسکتا کہ کام کرنے سے پہلے ہی سہارا لے لیا جائے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 254 آئین میں دی گئی مدت کو تبدیل نہیں کرسکتا، اور یہ آرٹیکل آئین کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دیتا، الیکشن ہمارے گورننس سسٹم کوچلانے کیلٸے بہت اہم ہے، اس کا عمل شفاف اور پرامن ہونا چاہیے، آرٹیکل 218 انتخابات کے شفاف ہونے کی بات کرتا ہے، ہمارے لیڈرز نے اب تک کیا کیا۔

عدالت نے پی ٹی آئی کی درخواست پروفاق کو نوٹس جاری کردیا، الیکشن کمیشن اور گورنر کے پی کو پرنسپل سیکرٹری کےذریعے بھی نوٹس جاری کردیا۔ عدالت نے تمام فریقین سے کل تک جواب مانگ لیا اور سماعت ملتوی کردی۔

سماعت کے اختتام پر چیف جسٹس نے اہم ریمارکس دیئے اور کہا آئین اور قانون عوام کے تحفظ کیلئے بنائے گئے ہیں، آئین اور قانون کی تشریح حقیقت پر مبنی کرنی ہے خلاء میں نہیں، قیام امن کیلئے تحریک انصاف نے کیا کردارادا کیا ہے الیکشن چاہتے ہیں تو فریقین کو پرامن رہنا ہوگا۔

عدالت نے شفاف انتخابات کیلئے پی ٹی آئی اورحکومت سے پرامن رہنے کی یقین دہانی مانگ لی، اور ریمارکس دیئے کہ یقین دہانی کیسی ہوگی یہ فیصلہ دونوں فریقین خود کریں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عوام کیلئے کیا اچھا ہے کیا نہیں فریقین خود جائزہ لیں، آئین صرف حکومت بنانے اور گرانے کیلئے نہیں ہے، عدالت کو دونوں اطراف سے یقین دہانی چاہیے، انتخابات پرامن، شفاف اورمنصفانہ ہونے چاہیے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن صرف ایک آئینی ادارہ ہے، انتہائی افسوناک صورت حال ہے تمام فریقین دست وگریبان ہیں۔

pti

Supreme Court of Pakistan

punjab kpk election

Election Commission of Pakistan (ECP)

politics march 28 2023