Aaj News

اتوار, دسمبر 22, 2024  
20 Jumada Al-Akhirah 1446  

’آئی ایم ایف تنگ آچکا، دوست ممالک کا صبر ختم ہوگیا‘

یہ 23واں آئی ایم ایف پروگرام ہے جو کہ ایک ورلڈ ریکارڈ ہے، محمد زبیر
شائع 26 مارچ 2023 09:18pm
PTI, foreign links, objectives?| Rubaroo with Shaukat Paracha | Aaj News

سابق گورنر سندھ، پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور مریم و نواز شریف کے ترجمان محمد زبیر کا کہنا ہے کہ عمران خان نے جو پلان دیا وہ کوئی معاشی پلان نہیں تھا، انہوں نے ایسے ہی کچھ چیزیں بتائی تھیں، کل رات جو انہوں نے باتیں کیں ان میں سے کوئی بھی پاکستان کا حل نہیں ہے۔

آج نیوز کے پروگرام ”روبرو“ میں گفتگو کرتے ہوئے محمد زبیر نے کہا کہ موجودہ حکومت پر عمران خان کی تنقید اس حد تک جائز ہے کہ آج کل حالات صحیح نہیں ہے، اس کو جھٹلایا بھی نہیں جاسکتا ، کس طرح انکار کریں گے مہنگائی اتنی ہے۔ آج میں آپ کے سامنے بیٹھ کر انکار کردوں تو لوگ کہیں گے اس کو کچھ پتا ہی نہیں ہے کہ عوام کا کتنا برا حال ہے۔ عوام کا کافی برا حال ہے اور ہمیں اس کا ادراک بھی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کی بہت سی وجوہات ہیں، ایک تو اس کا تسلسل ہوتا ہے۔ جہاں سے عمران خان نے چھوڑا اسے مکمل طور پر ریورس کرنا کسی کیلئے ممکن نہیں ہے۔

میزبان شوکت پراچہ کی جانب سے جب اس تمام معاملے پر نواز شریف کی رائے جاننے کی کوشش کی گئی تو محمد زبیر نے کہا کہ نواز شریف کا اس سارے معاملے پر نکتہ نظر صاف ہے، وہ پہلے نہیں چاہتے تھے کہ حکومت چلتی رہے، عدم اعتماد کے ووٹ کے بعد وہ اسمبلیاں تحلیل کرنے پر زور دیتے رہے۔ جنرل باجوہ کے انٹرویو میں موجود یہ بات بالکل صحیح ہے کہ مئی کے مہینے میں اسمبلیاں تحلیل کرنے جارہے تھے یہ بالکل طے ہوگیا تھا، لیکن عمران خان نے لانگ مارچ کا اعلان کردیا، عمران خان کو منع کیا تھا کہ لانگ مارچ کا اعلان نہ کریں، اب اگر لانگ مارچ کے اعلان کے بعد اسمبلی تحلیل کرتے تو تاثر جاتا کہ دباؤ میں آگئے، لانگ مارچ سے اتنی جلدی ڈر گئے۔

مریم نواز کا نئی سیاسی اسٹریٹیجی کیا ہوگی؟ اس سوال کو جواب دیتے ہوئے ترجمان مرم نواز نے کہا کہ اگلا ہفتہ بہت اہم ہے، کیونکہ پی ٹی آئی سپریم کورٹ میں گئی ہے، سپریم کورٹ اگر الیکشن کمیشن کو ہدایت کرتی ہے کہ 30 اپریل کو ہی الیکشن کرائیں، یا دوسرا فیصلہ کرتی ہے کہ الیکشن کمیشن حق بجانب ہے الیکشن ملتوی کرنے میں، تو اس سے سیاست ابھر کر سامنے آئے گی، اس وقت تک ہمیں انتظار کرنا چاہئیے۔ جیسا فیصلہ سپریم کورٹ کرے گی، مریم نواز اس کے بعد ہی سیاسی ایجنڈا بتائیں گی۔

ملکی معیشت پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سنہ 60ء کے بعد سے یہ 23واں آئی ایم ایف پروگرام ہے جو کہ ایک ورلڈ ریکارڈ ہے، یعنی کہ ہم ہر تین سال کے بعد آئی ایم کے پاس جاتے ہیں، انڈیا ایک دفعہ گیا ہے، بنگلہ دیش دو تین مرتبہ گیا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ جب آپ اتنی مرتبہ جاتے ہیں تو آئی ایم ایف بھی اب تنگ آچکا ہے۔ آئی ایم کہتا ہے بہت سے فیصلے آپ نے دیر سے لئے آپ کو پہلے یہ فیصلے کرنے تھے۔ مفتاح اسماعیل جب تھے اس وقت ہم آئی ایم ایف کے پروگرام میں واپس چلے گئے تھے اور ستمبر کے پہلے ہفتے میں ہمیں لاسٹ ٹرانس مل گیا تھا، پھر جب ڈار صاحب آئے تو سمجھ رہے تھے کہ وہ اپنے تجربے کو اچھی طرح استعمال کرسکتے ہیں، اس طرح سے کہ پہلے دوست ممالک کے پاس جائیں ، اگر وہاں سے پیسہ مل جاتا ہے تو پھر آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت اتنی سخت نہیں ہوگی۔ محمد زبیر نے کہا کہ اس دوران ہمیں یہ بھی محسوس ہوا کہ دوست ممالک کے مطالبات بھی بڑھ گئے ہیں، ان کا صبر بھی ختم ہو گیا ہے، وہ بھی کہتے ہیں کہ آپ اپنی معیشت کو ٹھیک تو کرتے نہیں ہیں، ہر تھوڑے عرصے بعد وہی کہانی آخر سناتے ہیں پچھلا خراب کرکے گیا تھا۔

ن لیگی رہنما کا کہنا تھا کہ معید یوسف نے 2021 میں جو پالیسی بنائی وہ بہت بہترین پالیسی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ معیشت قومی سلامتی پالیسی کا مرکزی نقطہ ہوگا۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ انڈیا اور پاکستان کے وزیراعظم جب پانچ سات سال تک بات ہی نہ کریں اور جب کوئی بات کرے جیسا کہ نواز شریف صاحب نے کرنے کی کوشش کی تو ان کو کہ دیا جاتا ہے کہ مودی کا یار ہے واجپائی کا یار ہے۔

پروگرام کے دوسرے حصے میں گفتگو کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے نائب صدر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ عمران کان نے جلسے میں بتایا کل کو اگر تحریک انصاف کی حکومت آتی ہے تو ہم کیا معاشی اصلاحات کریں گے، کن محکموں کی ہم نے ری اسٹرکچرنگ کرنی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یورپین یونین کے سفراء سے جو ملاقات ہوئی وہ اپوزیشن کا حق ہے کہ اپنا مؤقف پیش کرے، اس لئے ہم نے مناسب سمجھا کہ ان سے ملیں اور سیاسی، معاشی اور دیگر حالات پر اپنا نکتہ نظر پیش کریں۔

حکومت سمجھتی ہے پاکستان پر پابندیوں کی نوبت پیدا کر رہے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بالکل نہیں، پاکستان کو بچانا ہمارا نظریہ ہے، پاکستان ہمارا ملک ہے، ہم اس کو کیوں نقصان پہنچائیں گے۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تاھ کہ ہم نے مذاکرات سے کب انکار کیا ہے، ہماری نظر میں اس سیاسی بحران کا حل فریش مینڈیٹ اور شفاف نئے انتخابات ہیں، اس کیلئے ہم بیٹھ کر گفتگو کرنے کیلئے تیار ہیں۔ حکومت نے پہل کرنی ہے، انہوں نے اس کیلئے ہمیں اب تک باضابطہ طور پر کچھ نہیں لکھا۔

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے وزیراعظم شہیباز شریف کو لکھے گئے خط کے حوالے ان کا کہنا تھا کہ صدر نے اپنے خط میں ذاتی جذبات کا ذکر نہیں کیا، آئینی حوالہ جات دئے ہیں، صدر نے جو کچھ کیا آئین کے مطابق کیا۔

30 اپریل کو یقینی انتخابات کے سوال پر انہوں نے کہا کہ اس ملک میں آئین کی کوئی اہمیت ہے تو 30 اپریل سے فرار ممکن نہیں، اگر آئین کو توڑنا ہے تو پھر آپ کچھ بھی کرسکتے ہیں کوئی بھی جواز بنا سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 220 بڑا واضح ہے، الیکشن کمیشن کو واضح اختیار ہے کہ اگر مرکزی حکومت ان سے تعاون نہیں کر رہی تو وہ آرٹیکل 220 کا سہارا لے سکتے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے یکطرفہ اقدامات نہیں کرنے، اس کے پاس سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے، وہ رہنمائی کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کرسکتے تھے۔ الیکشن کمیشن نے یکطرقہ اقدام اٹھا کر اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے، یہ ہمارا نظریہ ہے اور ہم نے اس بنیاد پر سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کی ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئیر رہنما قمر زمان کائرہ نے بھی پروگرام میں شرکت کی اور اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان اور ان کی جماعت سہارے لینے اور اپنی مقبولیت کیلئے پاکستان کی سلامتی، معیشت اور خارجہ پالیسی کو کسی بھی خطرے میں ڈالنے کی پوزیشن میں آجاتے ہیں۔

انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ دیکھا یہ ہے کہ کیا اسمبلیاں کسی اصول کے تحت توڑی گئیں؟ پرویز الہیٰ آج بھی کہتے ہیں کہ خان صاحب نے اب جو کیا تو پھر بھگتیں۔

تیس اپریل کے انتخابات ملتوی کئے جانے کے حوالے قمر زمان کائرہ نے کہا کہ دیکھنا ہوگا کیا الیکشن کمیشن نے جو کیا وہ کرسکتا تھا۔

انہوں نے کہا کہ دو صوبوں میں الیکشن کرواکر ہم تنازع اور بڑھائیں گے، اس سے بہتر ہے کہ مردم شماری مکمل ہوجائے اور ایک ہی وقت میں الیکشن ہوجائیں۔

Shah Mehmood Qureshi

IMF

Qamar Zaman Kaira

Muhammad Zubair

punjab election

Election Commission of Pakistan (ECP)