دنیا میں سب سے بڑا ہتھیاروں کا خریدار کون
دنیا بھرمیں ہتھیاروں کی خرید وفروخت کے حوالے سے تحقیقی ادارے اسٹاک ہوم انٹرنیشل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ (سیپری) نے اپنی سالانہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ گزشتہ سال پوری دنیا میں فروخت ہونے والے ہتھیاروں کا 11فیصد بھارت نے خریدا جس کی وجہ پاکستان کے ساتھ سرحدی کشیدگی ہے۔
رپورٹ کے مطابق بھارت کو 2013 سے 2022 تک یہ ہتھیار فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک روس ہے، گو اس عرصے میں یہ 64 فیصد سےکم ہو کر 45 فیصد ہوگیا ہے۔ بھارت کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ ہتھیارخریدنے والا ملک قطراورفروخت کرنے والا ملک امریکا ہے۔
اس سے قبل گزشتہ ماہ بھارتی وزارت دفاع کے جونئیروزیراجے بھٹ نے پارلیمان کو آگاہ کیا تھا کہ گزرے 5 سال میں بھارت نے امریکا، روس، فرانس، اسرائیل اوراسپین سے تقریباً 24 ارب ڈالرزکے جنگی جہاز، ہیلی کاپٹر، میزائل، راکٹ، سالٹ رائفلز اور گولہ بارود خریدے، تاہم اس میں فرانس سے خریدے گئے 8 ارب ڈالرکے رفال جنگی جہاز شامل نہیں۔
اجے بھٹ نے راجیہ سبھا میں تحریری جواب میں بتایا تھا کہ ہتھیاروں کی خریداری پراخرات 46 فیصد سے کم ہو کر 37 فیصد پر آ گئے ہیں لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ بھارتی فوج بہت بڑی ہے اورابھی مزید کئی سال تک دوسرے ممالک سے جنگی سازوسامان درآمد کرنا پڑے گا۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیاہے کہ 2018 سے 2022 کے دوران پاکستان کی جانب سے بھی ہتھیاروں کی خریداری میں 14 فیصد اضافہ ہوا۔
عالمی سطح پر بات کی جائے تو ہتھیاروں کی فروخت میں پاکستان کاحصہ 3.7 فیصد ہے، یہ بات اہم ہے کہ پاکستان کیلئے77 فیصد جنگی سازوسامان کی فراہمی چین سے کی جاتی ہے۔
پاکستان کے ساتھ سرحدی کشیدگی کے علاوہ مئی 2020 میں وادی گلوان میں ٹکراؤ کے بعد بھارت کی چین کے ساتھ بھی کشیدگی میں اضافہ ہوا اور سرحدوں پر بڑی تعداد میں ہتھیار نصب کرتے ہوئے فوجیوں کو تعینات کیا گیا۔
یہ بات اہم ہے کہ مودی حکومت نے گذشتہ 5 سال سے ’آتم نربھربھارت‘ پروگرام کے تحت نجی کمپنیوں کے ساتھ ملک میں ہی مختلف اقسام کے ہتھیار بنانے کی مہم شروع کی ہے، یہ کمپنیاں غیرملکی کمپنیوں کے اشتراک سے بھی ہتھیاربنا رہی ہیں۔
رواں سال کے دفاعی بجٹ میں تقر یباً 12 ارب ڈالرملک میں بننے والے ہتھیاروں کی خریداری کیلئے مختص کرنے والی بھارتی حکومت کی کوشش ہے کہ وہ آنے والے دور میں درآمدی ہتھیاروں پرکم سے کم انحصارکرے۔
بھارتی تجزیہ کارراہل بیدی نے برطانوی نشریاتی ادارے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سیپری کی رپورٹ میں ذکرکیا گیا ہے کہ چین اورپاکستان سے بڑھتی ہوئی کشیدگی کے سبب بھارت میں ہتھیاروں کی مانگ زیادہ ہو گئی ہے اوریہی اصل وجہ ہے۔ حکومتی سطح پریہ سوچ ضرورہے کہ آپ کے پاس طاقت نہیں تو کوئی آپ کی نہیں سنے گا۔بھارت کی عسکری پالیسی بنیادی طور پردفاعی نوعیت کی ہے جس کا مقصد محض اپنی سرحدوں کا دفاع کرنا ہے۔قوم پرست حکومت کے باوجود افواج کی کی پالیسی اورفلسفہ کسی پر حملے نہیں بلکہ اپنے دفاع کاہے۔
Comments are closed on this story.