Aaj News

جمعہ, نومبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Awwal 1446  

الطاف حسین لندن کے گھر سمیت سوا 3 ارب کی جائیداد گنوا بیٹھے

ایم کیو ایم پاکستان نے لندن کی عدالت میں کیس جیت لیا
اپ ڈیٹ 13 مارچ 2023 04:33pm
تصویر: ایم کیو ایم/ آفیشل ویب سائٹ
تصویر: ایم کیو ایم/ آفیشل ویب سائٹ

متحدہ قومی موومنٹ کے بانی الطاف حسین لندن ہائیکورٹ میں پراپرٹیز کا کیس ہارگئے۔

الطاف حسین کی جانب سے دائرکردہ اس مقدمے میں مؤقف اختیارکیا گیا تھا کہ حقیق ایم کیو ایم وہ ہے جسے وہ چلا رہے ہیں نہ کہ وہ جسے فاروق ستار نے ہائی جیک کرلیا ہے۔

جج کلائیوجونزنے اپنے فیصلے میں کہا کہ ایم کیوایم پاکستان اصلی ایم کیو ایم ہے اور ایم کیو ایم پاکستان ہی لندن کی 6 پراپرٹیزکی اصل مالک ہے۔ بانی ایم کیوایم نے پارٹی ختم کر کے اپنے اختیارات سے دستبرداری اختیارکرلی تھی۔

ان جائیدادوں میں الطاف حسین کا گھر بھی شامل ہے جس کی مالیت تین مالین پاؤنڈ بتائی جاتی ہے۔ بانی ایم کیو ایم 2001 سے اس گھر میں مقیم ہیں۔ تاہم لندن کی عدالت میں مقدمہ کرنے والی ایم کیو ایم پاکستان نے الطاف حسین سے یہاں رہائش کا کرایہ بھی مانگ لیا ہے۔ پارٹی کا کہنا ہے کہ الطاف حسین کرایہ دیئے بغیر اس گھر میں برسوں سے مقیم ہیں۔

برطانیہ کی ہائی کورٹ میں قانونی جنگ کے بعد الطاف حسین کو سابق ساتھیوں کے خلاف لندن پراپرٹیز کے مقدمے میں تقریباً 10 ملین پاؤنڈ کا نقصان پہنچا ہے۔ یہ رقم پاکستانی روپوں میں تقریباً 3 ارب 36 کروڑ بنتی ہے۔ برطانوی عدالت میں پارٹی کی نمائندگی وزیر آئی ٹی سید امین الحق نے کی۔

حج نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ ایم کیوایم کے بانی الطاف حسین نے 23 اگست 2016 کی تقریرکے بعد پارٹی سےاستعفیٰ دے دیا تھا۔اس فیصلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایم کیوایم لندن کے خلاف اورخالد مقبول صدیقی کی زیرقیادت ایم کیوایم پاکستان کے حق میں فیصلہ دیا ہے۔ کیس کےاگلے مرحلے میں ٹرسٹیز کے کردار کا فیصلہ کیا جائے گا۔

الطاف حسین کے خلاف کیس

برطانیہ کی ہائی کورٹ میں ایم کیو ایم پاکستان کے سید امین الحق نے پارٹی کے بانی الطاف حسین اوردیگر ٹرسٹیز (اقبال حسین، طارق میر، محمد انور، افتخار حسین، قاسم علی اور یورو پراپرٹی ڈویلپمنٹ لمیٹڈ) کے خلاف کیس کا آغازکیا تھا، اس ٹرسٹ کا کنٹرول حاصل کرنے کیلئے جو درج ذیل 6 جائیدادیں کنٹرول کرتا ہے۔

ان چھ جائیدادوں میں 12 ایجویئر ایبی ویو ہاؤس (جہاں الطاف حسین رہتے ہیں)، ہائی ویو گارڈنز پہلا گھر، ہائی ویو گارڈنز دوسرا وہ گھر جہاں افتخار حسین اپنے خاندان کے ساتھ رہتے ہیں، وِچرچ لین کا پہلا گھر جو لاجر ہاؤس کے طور پر استعمال ہوتا ہے، وِچرچ لین کا دوسرا گھر، 53 بروک فیلڈ ایونیو ہاؤس (جہاں سلیم شہزاد اپنے خاندان کے ساتھ رہتے تھے) اور ایم کیو ایم کی پہلی منزل کا ایلزبتھ ہاؤس آفس (جو ایک زمانے میں بین الاقوامی سیکرٹریٹ کے طور پرجانا جاتا تھا) شامل ہے۔

طارق میر، محمد انور اور اقبال حسین نے ایم کیو ایم پاکستان کے دعوے کا مقابلہ نہیں کیا اوران سے اتفاق کرتے ہوئے ایک طرف ہوگئے جبکہ ایم کیو ایم کے سابق سینئررہنما ندیم نصرت جو وائس آف کراچی کے نام سے اپنی پارٹی چلاتے ہیں، ڈاکٹر فاروق ستار اورسابق میئر کراچی وسیم اختراس کیس کیس کی حمایت کرتے ہوئےالطاف حسین کے خلاف عدالت میں پیش ہوئے۔

ان تمام کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم نے 2015 کا آئین نہیں اپنایا اور 2016 کا آئین اس وقت موجود تھا جب الطاف حسین نے رضاکارانہ طور پر ایم کیو ایم پاکستان چھوڑ دی تھی، پھر ڈاکٹر فاروق ستار اور دیگر نے اسے دوبارہ کبھی قبول نہیں کیا۔

برطانوی ہائی کورٹ کا فیصلہ ٹرائل کے پہلے حصے سے متعلق ہے، دوسرا ٹرائل جلد ہوگا جس میں ٹرسٹیز کے کردار سمیت مختلف معاملات کا تعین کیا جائے گا۔اوریہ کہ ایم کیو ایم کے نام پر ملنے والی رقوم کو فائدہ اٹھانے والوں کے لیے کس طرح استعمال کیا گیا۔ ایم کیو ایم پاکستان بمقابلہ ایم کیو ایم لندن کیس انگلینڈ اور ویلز ہائی کورٹ کی جانب سے کیس کے حقائق پر فیصلہ سنانے سے متعلق ہے کہ آیا الطاف حسین کی قیادت والا گروپ ٹرسٹس سے مستفید ہوا ہے یا سید امین الحق کی ایم کیو ایم پاکستان کی نمائندگی کرنے والا گروپ فائدہ اٹھا رہا ہے۔

تنظیم کی آئینی تاریخ کےحقائق کے گرد گھومتے اس معاملے میں عدالت کو طے کرنا ہے کہ کون سا آئین درست ہے۔ 2016 کا آئین جس پر ایم کیو ایم پاکستان انحصار کرتی ہے اور جسے ایم کیو ایم کی سینٹرل کوآرڈینیشن کمیٹی (سی سی سی) نے منظورکیا تھا یا 2015 کا آئین جس پر الطاف حسین انحصار کرتے ہیں، اگست 2016 اور ستمبر 2016 میں نافذ اورلاگو ہوا تھا جب الطاف حسین نے ایم کیو ایم چھوڑ کر ایم کیو ایم تشکیل دی تھی۔

ایم کیوایم پاکستان کے سید امین الحق کا کہنا ہے کہ الطاف حسین کا 22 اگست 2016 سے ایم کیو ایم میں کوئی قائدانہ کردار نہیں تھا، ان کی مبینہ ویٹو پاور کو 22 اگست 2016 کو انکی متنازع تقریر کے بعد معافی کے خط سے نقصان پہنچا۔

ایم کیو ایم پاکستان کا مزید کہنا تھا کہ مدعا علیہان جو ٹرسٹیز ہیں وہ ٹرسٹ ڈیڈز کے مطابق ٹرسٹس نہیں چلا رہے اور تمام آمدنی اور اثاثوں کو اپنے ذاتی فائدے کے لئے استعمال کررہے تھے۔ انہیں ٹرسٹی کے طور پر ہٹاتے ہوئے ان کے کیے گئے اقدامات کی ناکامی کے لئے جوابدہ ٹھہرایا جائے۔

حقیقی ایم کیوایم کون سی؟

اس کیس کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، پہلا یہ کہ اصل فائدہ اٹھانے والی ایم کیو ایم پاکستان ہے یا ایم کیو ایم لندن۔۔ سادہ الفاظ میں کہیں تو قیام سے لے کر اب تک کام کرنے والی حقیقی اورقانونی ایم کیو ایم کون سی ہے۔

سماعت کے دوران ایم کیو ایم پاکستان نے آئین کی شکل میں دستاویزات کا ایک ٹریل فراہم کیا جو الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) میں رجسٹرڈ تھیں۔ واحد آئین جو الیکشن کمیشن کے ریکارڈ کا حصہ نہیں تھا وہ 2015 کا آئین تھا جس پر الطاف حسین سمیت مدعا علیہان نے بھروسہ کیا۔

فیصلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ آئی سی سی جج جونز نے ایم کیو ایم پاکستان کی جانب سے پیش کردہ کیس کو قبول کیا اور الطاف حسین کی قانونی ٹیم کی جانب سے پیش کیے گئے کیس پر یقین نہیں کیا۔

فیصلے کے مطابق مدعا علیہان کا مؤقف تھا کہ 2015 کا آئین آپریشنل آئین تھا جس نے الطاف حسین کو 2015 کے آئین کے آرٹیکل 9 بی کے تحت اختیارات دیے تھے لیکن وہ اس کی اصلیت ثابت کرنے میں ناکام رہے۔ جج نے الطاف حسین کی اس دلیل کو قبول کر لیا کہ انہوں نے 22 اکتوبر 2015 کو ایک ایسے آئین کو منظوری دی تھی جس میں متعدد غلطیاں تھیں۔

london

Altaf Hussain

MQM Pakistan

MQM London