ظل شاہ کی موت تشدد سے نہیں گاڑی حادثے میں ہوئی، ڈرائیور اور کارکنان کا اعترافی بیان
پی ٹی آئی کے مرحوم کارکن علی بلال عرف ظل شاہ کی موت تشدد سے نہیں گاڑی سے حادثے سے ہوئی، یہ اعتراف کیا ہے اس ڈرائیور نے جس کی گاڑی کی ٹکر سے ظل شاہ کی موت واقع ہوئی۔
آئی جی پنجاب نے ظلِ شاہ کی موت کو حادثہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ملزمان کو بھی حراست میں لے لیا گیا ہے، انہوں نے گاڑی کے ڈرائیور کا اعترافی بیان بھی چلایا جو مبینہ طور پر پی ٹی آئی کے ہی رہنما کا ڈرائیور ہے۔
اعترافی بیان میں ڈرائیور جہانزیب نواز کا کہنا تھا کہ وہ ایک پرائیویٹ کمپنی میں بطور ڈرائیور کام کرتا ہے۔
جہانزیب کا کہنا تھا کہ 8 مارچ کو ہم دوستوں کے ساتھ کھانا کھانے گئے تو ہماری گاڑی کی ایک شخص کے ساتھ ٹکر ہوئی، گاڑی کی ٹکر سے ظل شاہ گر گیا تھا جسے ہم نے پھر گاڑی میں ڈالا۔
جہانزیب نواز نے بتایا کہ سب سے پہلے ہم اس کو سی ایم ایچ لے کر گئے کیونکہ وہ قریب تھا، سی ایم ایچ میں رش زیادہ تھا ہم وہاں سے نکل کر سروسز ہسپتال پہنچے، ایدھی کی سٹریچر پر ظل شاہ کو ہسپتال کے اندر لے کر گئے تو ڈاکٹر نے کہا کہ اس کی موت ہو چکی ہے، اس وجہ سے ہم وہاں سے گاڑی نکال کر گھر واپس آگئے۔
ڈرائیور جہانزیب نواز نے مزید بتایا کہ اگلی صبح جب اٹھا تو سوشل میڈیا پر میں نے اپنی تصاویر دیکھیں تو پریشان ہوگیا، میں نے اپنے باس راجا شکیل زمان جو پی ٹی آئی کے نائب صدر ہیں ان کو واقعہ کی مکمل تفصیل بتائی، انہوں نے میری ڈاکٹر یاسمین راشد سے ملاقات کرائی اور تفصیل بتائی، پھر مجھے عمران خان کے پاس لے کر گئے اور خاں صاحب کو واقعے کی تفصیل بتائی۔
جہانزیب نواز نے کہا کہ خان صاحب نے شاباش دی اور ہم وہاں سے واپس آگئے، راجا صاحب نے مجھے کہا کہ آپ اپنا حلیہ تبدیل کرلیں اور فکر نہ کریں، مجھے راجا صاحب نے کہا کہ آپ جیسے مرضی لاہور میں گھومیں ہم دیکھ لیں گے۔
ایک اور شخص عمر فرید ولد غلام حبیب نے بتایا کہ میں ہڑپہ کا رہنے والا ہوں اور 2012 سے یہاں پر ایئر ٹکٹنگ کا کام کر رہا ہوں۔
عمر فرید نے بتایا کہ جس دن یہ واقع ہوا میرے دوست نے مجھے فون کر کے کہا کہ کہاں ہو، میں نے جواب دیا کہ میں اپنے کمرے پر ہوں، اس نے کہا کہ ہم کھانا اکھٹے کھاتے ہیں، میں آجاتاہوں، یہ گاڑی لے کر آئے اور کہنے لگے کہ ہم پہلے گاڑی لگا آتے ہیں پھر کھانا کھاتے ہیں۔
عمر فرید نے مزید بتایا کہ ہم لنکن کالونی سے نکلے اور سروس روڑ پر تھے، جیسے ہی مال روڈ پر چڑھنے لگے تو یہ شخص (ظلِ شاہ) سڑک کے درمیان میں چل رہا تھا، جس سائیڈ پر میں بیٹھا تھا، اس طرف سے گاڑی اسے لگی اور وہ سڑک پر گر گیا، ہمیں لوگوں نے پھر ہاتھ دیا کہ اس کو مدد کی ضرورت ہے، جہانزیب گاڑی سے اترا اور ایک بندے کی مدد سے اسے گاڑی میں ڈالا اور ہمیں بتایا گیا کہ قریب سی ایم ایچ ہسپتال ہے، ہم اسے وہاں لے کر گئے تو دروازہ بند تھا ، پھر ہم نے فیصلہ کیا کہ سروس ہسپتال چلتے ہیں، سروسز لے جانے لگے تو ٹریفک بہت زیادہ تھی، وارڈن کو بتایا کہ گاڑی میں مریض ہے ، تو اس نے اشارہ کھلوا دیا، ہم سروس پہنچے، جہانزیب سٹریچر پر اسے اندر لے کر گیا اور ڈاکٹرز کے حوالے کیا، واپس آ کر اس نے بتایا کہ وہ فوت ہو گیا ہے ، پھر ہم وہاں سے واپس آئے اور گاڑی کھڑی کر دی۔
دوسری جانب قیدیوں کی وین میں موجود پی ٹی آئی کے کارکن اشتیاق کا بیان بھی سامنے آیا ہے۔
اشتیاق احمد نے کہا کہ ہمیں زمان پارک سے گرفتار کیا گیا اور قیدی وین سے فورٹرس اسٹیڈیم کی طرف لے کر جا رہے تھے، پولیس نے ہمارے اور بھی ساتھیوں کو گرفتار کیا گیا جس میں مدثر شاہ اور ظل شاہ بھی شامل تھے۔
اشتیاق کا کہنا تھا کہ ہمارے ایک ساتھی کو واش روم جانا تھا جس کے لیے گاڑی رُکی اور ہم نے دروازہ کھولا، ہم سب لوگ گاڑی سے نکل گئے تو ہمارے ساتھ مرحوم ظل شاہ بھی چل پڑا۔
پی ٹی آئی کارکن محسن شاہ نے کہا کہ 8 مارچ کو زمان پارک سے ہمیں پولیس کی جانب سے گرفتار کیا گیا تھا، پولیس ہمیں قیدیوں والی وین میں بٹھا کر لے کر جا رہی تھی، ایک لڑکے کو واش روم جانا تھا تو ہم نے دروازہ کھولا تو ہم سارے وہاں سے نکل گئے، میں نکل کر بس اسٹاپ کی طرف گیا اور میرے ساتھ ظل شاہ بھی تھا۔
پوسٹ مارٹم میں کیا تھا؟
نو مارچ کو جاری ہونے والی علی بلال کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں موت کی وجہ سر اور جسم پر لگنے والی گہری چوٹیں بتائی گئی ہیں۔
نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ایک سرجن نے بی بی سی کو بتایا کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق علی بلال کے سر پر بلنٹ انجری (کھال کو پھاڑنے والی ایسی گہری چوٹ جو ٹراما کا سبب بنے) ہوئی اور یہی ان کی موت کی وجہ تھی۔
رپورٹ کے مطابق علی بلال کی تلی اور جگر دونوں پر گہری چوٹیں تھیں اور یہ اعضا بری طرح زخمی تھے۔
ڈاکٹر کے مطابق علی بلال کے جنسی اعضا (ٹیسٹیز) پر گہری چوٹیں موجود تھیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کھوپڑی کے فریکچر اور انٹرا سیریبرل ہیمرج (دماغ کی بافتوں میں خون بہنا) کے باعث علی بلال کی موت ہوئی۔
علی بلال کو لگنے والے ان تمام گہرے زخموں سے بے تحاشا خون بہا جس سے ان کا تمام اندرونی نظام غیر فعال ہو گیا اور زخموں کی تاب نہ لا کر وہ شاک میں گئے۔
ڈاکٹر کے مطابق ’پوسٹ مارٹم میں ان تمام مقامات کی نشاندہی کی گئی جہاں چوٹ یا زخم تھے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’علی بلال کے سر اور چہرے پر سات مقامات پر جبکہ جسم کے مختلف حصوں میں کل 26 مقامات پر چوٹیں اور زخم پائے گئے جس میں سب سے گہرے زخم کھوپڑی، جنسی اعضا اور جگر و تلی کے مقام پر تھے۔‘
’پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق علی بلال کے جسم کے دیگر حصوں پر بھی متعدد چوٹیں اور زخم پائے گئے۔ رپورٹ میں تحریر ہے کہ ان کے جسم پر تمام زخم اور چوٹیں ان کی زندگی میں ہی لگیں۔‘
Comments are closed on this story.