’کیل کانٹوں سے لیس‘ ہونے کا محاورہ سچ ثابت ہوا’
فیشن اوراسٹائلنگ کا مطلب عام زندگی میں تو خود کو تھوڑا سجا سنوارکر رکھنے اور اسٹائلش کپڑے ، جیولری، بیگزسمیت میچنگ کے جوتوں سمیت بالوں پر خصوصی توجہ دینے سے لیا جاسکتا ہے، لیکن فیشن ڈیزائنرزکی ڈکشنری ’ ذرا ہٹ کر’ ہے۔
بین الاقوامی سطح پر بڑے ایونٹس جیسے کہ پیرس فیشن ویک یا کانز فلم فیسٹول میں ہرسال ماڈلز اور سیلیبرٹیز کے ملبوسات دیکھ کر واقعی محسوس ہونے لگا ہے کہ اب فیشن کے معنی تبدیل ہوچکے ہیں۔
سوشل میڈیا پر وائرل ایک ماڈل کا لباس ہی دیکھ لیں، نئے معنوں میں فیشن یہی ہے جسے دیکھ کر دل ودماغ کے مابین جنگ چھڑجائے کہ یہ کپڑے ہیں یا برتن مانجھنے کیلئے تاروں کا جمبو پیک ۔
سویڈن کی اپسالا یونیورسٹی میں پروفیسرآف پیس اینڈ کنفلیکٹ ریسرچ اشوک سوائن نے تو صارفین کے سامنے باقاعدہ ایک سوال رکھ ڈالا۔ ویڈیوشیئرکرتے ہوئے انہوں نے ہیش ٹیگ میں خواتین کے عالمی دن کا حوالہ دیتے ہوئے پوچھا، ’ کون سےملک میں خواتین کو اپنی حفاظت کے لیے اس طرح کے لباس پہننے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے؟’۔
یہاں حفاظت کا نکتہ شاید اس لیے اجاگرکیا گیا کیونکہ جال نما اس لباس کے کناروں پر لہلہاتی لیس پر پہلی نظرمیں کانٹوں کا گمان ہوتا ہے اور یوں ’ کیل کانٹوں سےلیس’ ہونے کا محاورہ بھی سچ ثابت ہوتے دکھائی دیتا ہے۔
اس سوال سے اشوک سوائن کی کیا مراد تھی یہ تو وہی جانیں لیکن ٹویٹ پرتبصرہ کرنے والوں نے انہیں جوابات میں خاصے آڑے ہاتھوں لیا۔
ویسے پروفیسرصاحب کا سوال پوچھنا کچھ اتنا عجیب بھی نہیں کیونکہ خاتون جس طرح سے اس عجیب وغریب جال نما لباس میں ملبوس ہیں کسی کو بھی دیکھ کر حیرت ہوسکتی ہے۔
Comments are closed on this story.