آئندہ انتخابات میں اردوغان کو ٹکردینے والے ترکیہ کے ’کمال گاندھی‘ کون ہیں
ترکیہ کی 6 اپوزیشن جماعتوں ںے 14 مئی کو ہونے والےعام انتخابات میں صدررجب طیب اردوغان کیخلاف مشترکہ امیدوارلانے کا فیصلہ کیا ہے۔
گزشتہ 20 سال سے برسراقتداراردوغان عام انتخابات میں ایک بارپھراقتدارمیں واپس آنے کی کوشش کریں گے، ان کے دوراقتدارمیں ترک کرنسی لیرا میں تیزی سے کمی کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں جارحیت دیکھنے میں آئی ہے، تاہم ملک میں حالیہ تباہ کن زلزلے کےاردوغان کیلئے یہ انتخابات زیادہ مشکل ہوگئے ہیں۔
اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے منتخب کیے جانے والے یہ مشترکہ امیدوار ریپبلکن پیپلزپارٹی کے رہنما ہیں جوترکیہ کی ایک بڑی اپوزیشن جماعت ہے جس کی بنیاد جدید ترکیہ کے بانی مصطفی کمال اتاترک نے رکھی تھی۔
اردوغان کیخلاف بطورمشترکہ اس جماعت کے رہنما اورکرپشن کے خلاف لڑنے والے سابق سرکاری ملازم کلچادرل وکا انتخاب بہت اہم ہے،جس پر متحد ہونا اپوزیشن کے لیے آسان نہیں تھا۔
ترکیہ کا گاندھی
ترکیہ کی سیاست میں اردوغان کو کرشماتی رہنما کےطورپردیکھا جاتا ہے تو وہیں کمال کلچادرلوکو ترکیہ کا گاندھی یا کمال گاندھی کہا جاتا ہے۔ 74 سالہ کمال کلاچادرلو اپنے ملک سے متعلق ایک مختلف نقطہ نظر پیش کرتے ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ وہ تفاق رائے اور مشاورت سے ترکیہ پرحکومت کریں گے لیکن ان کے ساتھیوں کو لگتا ہے کہ کلچادرلو میں ووٹ حاصل کرنے کی صلاحیت کم ہے۔
موجودہ صدررجب طیب اردوغان نے سال 2018 میں صدارتی نظام نافذ کیا تھا جس کے تحت انہیں لامحدود اختیارات حاصل ہوئے تھے۔
روئٹرز سے بات کرتے ہوئے کلچادرلونے ترکیہ میں پارلیمانی نظام بحال کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا کہ ہم امن کے حق میں ہیں اورہمارا واحد مقصد ملک کو خوشی، خوشحالی اورامن کے دورمیں لے جانا ہے۔
کلچادرلونے اپنی مقبولیت بڑھانے کیلئے اقلیتی برادریوں تک پہنچنے کے ساتھ ساتھ دائیں بازو کی جماعتوں کے ساتھ بھی اتحاد کیا ہے۔
جیت کے امکانات بڑھ سکتے ہیں
روئٹرز کی رپورٹ کے مطابق پیر کے معاہدے کے بعد کلچادرلو کی جیت کے امکانات بڑھ سکتے ہیں کیونکہ گذشتہ جمعے کو دائیں بازو کی جماعت آئی وائی آئی کے احتجاج کے بعد حزب اختلاف تقسیم ہوگئی تھی تاہم 72 گھنٹے کی کوششوں کے بعد اپوزیشن جماعتوں نے پیرکو ایک بار پھر میٹنگ کی جس میں آئی وائی آئی کی تجویز کو قبول کر لیا گیا۔
تجویز میں استنبول اور نقرہ کے میئرکو نائب صدربنانے کی شرط بھی شامل ہے۔ صدارتی امیدوارکلچادرلو نے پیرکو اپنی تقریرمیں کہا کہ بقیہ 5 پارٹیوں کے رہنما بھی نائب صدربنیں گے۔
اس سے قبل آئی وائی آئی نے جمعہ کے روز کلچادرلو کے جیتنے کے امکانات پر خدشات کا اظہار کرتے ہوئے اتحاد سے دستبرداری اختیارکرلی تھی۔آئی وائی آئی کے مطابق اتحاد کو2 میئرز میں سے کسی ایک کو بطورامیدوارمنتخب کرنا چاہیے کیونکہ اس سے کارکردگی میں بہتری کا امکان ہے۔تاہم پیر کے معاہدے کے بعد آئی وائی آئی نے موقف تبدیل کرتے ہوئے کلچادارلو کی حمایت کی۔
ترکیہ کی سیاست پرنظررکھنے والی تنظیم اسٹریٹجک ایڈوائزری سروسزکے منیجنگ ڈائریکٹر ہاکان اکباس کا کہنا ہے کہ ، ’یہ اردوغان کیخلاف ایک بڑی سیاسی بغاوت ہے جس کے بعد پوزیشن جماعتوں کو 14مئی کو فیصلہ کن فتح ملنی چاہیے-‘
پارلیمان میں تیسری سب سے بڑی اپوزیشن جماعت ایچ ڈی پی نے بھی کہا ہے کہ وہ کلچادرلو کی حمایت کرے گی۔
پارٹی لیڈرمٹھان شنکرکے مطابق ، ’ہماری بنیادی توقع مضبوط جمہوریت کی طرف بڑھنا ہے۔ اگرہم بنیادی اصولوں پرمتفق ہوسکتے ہیں توصدارتی انتخابات میں انکی حمایت کرسکتے ہیں‘-
اردوغان کیلئے ایک بڑا چیلنج
ترکیہ میں ہولناک زلزلے سے قبل بھی افراط زر 85 فیصد تک بڑھنے کی وجہ سے اردوغان کی مقبولیت میں کمی آئی تھی، تاہم انتخابی سروے کرنے والوں نے جمعے کو ایک بیان میں کہا کہ اردوگان اور ان کی جماعت ایک حد تک عوام میں اپنی حمایت بچانے میں کامیاب رہے ہیں۔
یہ بات قابل ذکرہے کہ 2002 میں اکامیابی کے بعد سے اردوغان کی پارٹی کو کبھی بھی شکست کا سامنا نہیں کرنا پڑا، اقتدار میں آکر انہوں نے ترکیہ کومقدس، تحفظ پسند معاشرے اور ایک جارحانہ علاقائی طاقت کے طور پر تشکیل دیا۔
دوسری جانب حزب اختلاف جماعتوں کا کہنا ہے کہ وہ اردوغان کا لایا صدارتی نظام ختم کرکے پارلیمانی جمہوریت کا نظام لائیں گے۔مرکزی بینک کو آزاد کرائیں گے جس نے مزید معاشی ترقی کیلئے اردوغان کے کہنے پرشرح سود میں کمی کی تھی لیکن اس اقدام سے ترک کرنسی لیرا میں تیزی سے گراوٹ اور افراط زر میں ضافہ دیکھنے میں آیا۔
Comments are closed on this story.